امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کیمسٹری بظاہر مل چکی تھی اور دونوں مشترکہ مقاصد، مشترکہ چیلنجز اور خطرات حتیٰ کہ مشترکہ دشمنیوں اور دوستیوں کی ڈور میں بندھتے دکھائی دے رہے تھے۔ مودی کو بھارت کا ٹرمپ اور ٹرمپ کو امریکا کا مودی کہا جانے لگا تھا۔ دونوں کے لہجوں اور رویوں سے انگارے اور چنگاریاں اُبلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ مزاجوں کی اس یکسانیت کی بنا دونوں کے درمیان خوب گزرنے کے آثار نمایاں تھے۔ امریکا کے ایک پہلو میں اسرائیل تھا تو دوسرے میں بھارت۔ قربت اس قدر بڑھ رہی تھی کہ من وتو کی تمیز ختم ہونے کے قریب تھی۔ محبت اور تعلق کے اس رنگ میں بھنگ کے آثار اس خبر سے دکھائی دینے لگے ہیں جس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت سے انکار کیا اور ان کی طرف سے ایک خط کے ذریعے دعوت قبول کرنے سے معذرت کی گئی ہے۔ جس کے لیے ٹرمپ کی امریکا میں کئی حکومتی مصروفیات کا عذر تراشا گیا۔ خلیجی اخبار گلف نیوز نے اس عذر کو محض بہانہ قرار دیا ہے کیوں کہ ٹرمپ نے جس مصروفیت کو جواز بنایا ہے اس کی تاریخ کا ابھی تعین ہی نہیں ہوا۔ بھارت کا یوم جمہوریہ چھبیس جنوری کو منایا جاتا ہے جو اس کی ریاستی طاقت اور فوجی دبدبے کا اظہار ہوتا ہے اور اس دن کی تقریبات میں کسی ایسے غیر ملکی حکمران کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جاتا ہے جس سے گاڑھی چھنتی ہو۔
2015 میں جب امریکا اور بھارت کی پریم کہانی پورے کلائمکس پر تھی بارک اوباما نے اپنا اسٹیٹ آف دی یونین کا سالانہ خطاب ملتوی کر کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی بننا قبول کیا تھا۔ چوں کہ یہ امریکا اور بھارت کے رومانس کا عروج تھا اس لیے اوباما کی اس انداز سے بھارت آمد خطے کے دو اہم ممالک چین اور پاکستان لیے ایک پیغام تھا۔ اس پیغام کا خلاصہ یہی تھا کہ امریکا علاقے میں بھارت کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ یوم جمہوریہ کی تقریب کے مہمان خصوصی کے جس تاج کو چند برس قبل اوباما نے پہننا اپنے لیے اعزاز سمجھا تھا اسے ایک طوق سمجھ کر ٹرمپ کا اتار پھینکنا حالات میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے دعوت کے استرداد کا بھارت میں عوامی سطح پر خاصا برُا منایا گیا۔ بھارت کے بہت سے شہریوں نے اسے اپنی قومی توہین قرار دیا ہے۔ اوباما اور ٹرمپ کے ادوار میں کچھ اس انداز سے فرق آگیا ہے کہ دونوں ملکوں کا نائن الیون کے بعد سے جاری رومانس اینٹی کلائمکس کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ بھارت میں امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے خلاف کچھ آوازیں ہمیشہ ہی اُٹھتی رہی ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ان میں بہت زیادہ تو نہیں مگر اضافہ ہی ہوتا رہا۔ بھارت میں ایک موثر حلقہ پاکستان اور امریکا کے ناکام تعلق کا حوالہ دے کر امریکا سے فاصلہ رکھنے کے حق میں دلائل دیتا رہا۔ اسی طبقے کا خیال تھا کہ امریکا بھارت کی ناز برداریاں بھارت ہونے کی بنا پر نہیں بلکہ چین کی ضد اور دشمنی میں برداشت کر رہا ہے۔ جس دن چین اور امریکا کے درمیان نظر نہ آنے والی معاشی اور عسکری سرد جنگ کم ہوئی تو امریکا بھارت کو اہمیت دینا بھی کم کر دے گا۔
امریکا اور بھارت کے تعلقات میں حال ہی میں کچھ خرابیاں در آئی ہیں جن میں ایک امریکی پابندیوں کے شکار ایران سے تیل کی خریداری کا معاملہ ہے۔ ایران بھارت کو تیل فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ امریکا کے دباؤ کے باوجود بھارت نے ایران سے تجارتی تعلقات محدود یا منقطع نہیں کیے جس کا امریکیوں کو قلق ہے۔ امریکا بھارت تعلقات میں در آنے والی دوسری خرابی بھارت کا روس سے اسلحہ کی خریداری کا معاہدہ ہے۔ روس اور بھارت کے درمیان 5.2بلین ڈالر کے اسلحے کی خریداری کے معاہدے کو امریکا نے پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے روسی صدر پیوٹن خود بھارت پہنچے تھے۔ سرد جنگ کے دو اتحادیوں اور دوستوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا اچانک کم ہونا امریکیوں کے کان کھڑے کرنے کا باعث بن گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد بھارت نے امریکا کے کندھے پر چڑھ کر اپنا قد چین کے برابر کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ امریکا بھی اس کوشش کو تقویت فراہم کرتا رہا۔ اس یارانے میں امریکا نے پاکستان جیسے ملک کو خود سے اس قدر دور کردیا کہ اب یہ دوری کلی طور پرکم ہونا ناممکن ہوگئی ہے۔ افغانستان میں امریکا نے بھارت کو اپنا متبادل بنانے کی امید پر پاکستان کو ناراض کیا۔ جب امریکا نے اپنی فوج کے انخلا کی صورت میں بھارت سے اس خلا کو پر کرنے کی دبے دبے انداز میں فرمائش کی تو بھارتیوں نے کانوں کو ہاتھ لگانے کے انداز میں اعلان کیا کہ وہ کبھی افغانستان میں اپنی فوج داخل نہیں کریں گے البتہ تعمیر وترقی کے کاموں میں افغان حکومت کا ہاتھ بٹاتے رہیں گے۔
امریکا کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے تھی کہ بھارت کی ریاست چانکیہ جیسے فلاسفر سے فکری اور روحانی راہنمائی لیتی ہے جس میں اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو استعمال کرکے پھینکنے کے اصول کی کارفرمائی ہے۔ امریکا نے بھارت کو استعمال کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر بھارت نے چین اور پاکستان کے مقابلے میں جی بھر کر امریکا کو استعمال کیا اور اب شاید یہ ضرورت پوری ہوگئی تو بھارت نے دوبارہ روس کی قربتوں میں پناہ لینے کی راہ اپنا لی ہے۔