کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

357

اپوزیشن اس وقت جس کرب سے گزر رہی ہے اس پر بے اختیار غالبؔ کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے
حضرت مولانا فضل الرحمن کی پوری کوشش ہے کہ بات کسی طرح بن جائے۔ وہ آل پارٹیز کانفرنس یعنی اے پی سی کی تجویز لیے اپوزیشن لیڈروں سے مل رہے ہیں تا کہ سب لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں اور عمرانی حکومت کے خلاف کوئی چارہ کریں جو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کی دُھن میں پُرانا پاکستان ڈھائے چلی جارہی ہے اور سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں میں بھی دو ہی لیڈر ایسے ہیں جس کے بارے میں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ یہ دونوں ہاتھی ایک جگہ بیٹھ گئے تو سمجھو پوری اپوزیشن ایک جگہ بیٹھ گئی اور یہ ہاتھی ہیں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری۔ چناں چہ حضرت مولانا کی کوشش ہے کہ ان دونوں ہاتھیوں کو ایک ہی اکھاڑے میں اُتارا جائے جہاں وہ اپنی سونڈ پھنسانے کے بجائے سونڈ کھڑی کرکے مشترکہ طاقت کا مظاہرہ کریں اور اپنے مشترکہ دشمن کو پوری قوت سے للکاریں۔ اس مقصد کے لیے حضرت مولانا نے سب سے پہلے آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے اور انہیں اے پی سی کے بارے میں اپنا ہم خیال بنانے کی مثبت کوشش کی ہے، پھر وہ یہی پیغام لے کر جاتی امرا پہنچے ہیں اور میاں نواز شریف سے دو گھنٹے تک ملاقات کی ہے۔ میاں صاحب کا دسترخوان بہت وسیع ہے۔ وہ اپنے مہمانوں کی بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے تو یہ ملاقات بہت خوشگوار تھی لیکن نتیجہ مثبت نہ تھا۔ میاں صاحب نے یہ کہہ کر اے پی سی میں شرکت سے انکار کردیا کہ میری گرفتاری کے وقت اے پی سی کیوں نہیں بلائی گئی تھی۔ یار لوگوں نے اس سے یہ اشارہ لیا ہے کہ شاید اب زرداری کی باری آنے والی ہے اور انہیں منی لانڈرنگ کیس میں کسی وقت بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے بلکہ چیف جسٹس تو مقدمے کی سماعت کے دوران لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ چکے ہیں کہ جن لوگوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک کو لوٹا ہے حکومت انہیں گرفتار کرکے جیلوں میں کیوں نہیں ڈالتی۔ دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے اے پی سی پر اعتراض کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مجوزہ کانفرنس زرداری کو بچانے کی سیاسی کوشش ہے وہ اس کوشش میں ہاتھ کیوں بٹائیں جب کہ انہیں بچانے کے لیے کسی نے اے پی سی نہیں بلائی تھی اور انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ حالاں کہ حضرت مولانا کے بارے میں یہ تاثر درست نہیں ہے کہ وہ زرداری کو بچانے کے لیے اے پی سی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ میدان سیاست کے شہسوار ہیں، کسی پیادے کو بچانے کے لیے اپنے گھوڑے کا رُخ نہیں موڑ سکتے۔ وہ
حکومت کے غیر جمہوری رویے کے خلاف اپوزیشن کو متحد کرنا چاہتے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر ذاتیات میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ اپنے بچاؤ کی فکر ہے۔ میاں نواز شریف کو ایک ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا ہوچکی ہے اور اس وقت وہ ضمانت پر ہیں، 2 مزید ریفرنسوں کی سماعت تیزی سے مکمل ہورہی ہے اور ماہِ رواں (نومبر) میں ان کا فیصلہ بھی آجائے گا۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ اِن مقدمات میں بھی قید و جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، اس طرح ان کی ضمانت پر رہائی غیر موثر ہوجائے گی اور انہیں پھر جیل جانا پڑے گا۔ میاں نواز شریف کو اس امکانی صورتِ حال کا بخوبی اندازہ ہے اس لیے وہ اپنے لبوں کو سیئے ہوئے ہیں۔ انہیں نہ اپوزیشن کے اتحاد سے دلچسپی ہے اور نہ حکومت کو گرانے کی فکر ہے، اگر فکر ہے تو اس بات کی کہ وہ موجودہ آزمائش سے کیسے نکل سکتے ہیں، ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف بھی نیب کے شکنجے میں ہیں اور ان کی رہائی بھی مشکل نظر آرہی ہے۔ اس طرح پورا شریف خاندان مشکل میں ہے اور اس کے ہمدرد اسے مشورہ دے رہے ہیں کہ ’’تجھ کو پرائی کی پڑی‘ اپنی نبیڑ تُو‘‘ یعنی دوسرے الفاظ میں ان کا مشورہ یہ ہے کہ ’’اپوزیشن اپوزیشن‘‘ کھیلنے کے بجائے ساری توجہ اپنے معاملے کو سیدھا کرنے پر دی جائے۔ ادھر آصف زرداری کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، سندھ میں ان کی حکومت ہے لیکن ان کا منی لانڈرنگ کا پورا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، سندھ میں فالودے والے، سبزی فروش، چھابڑی والے اور نجانے کن کن لوگوں کے بے نامی اکاؤنٹس منظر عام پر آئے ہیں جن کے ذریعے اربوں روپے باہر بھیجے گئے ہیں۔ ڈالر گرل ایان علی کے بھی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں جو اِن دنوں دبئی میں روپوش ہے، ان ساری وارداتوں کا کھرا ’’مہاگرو‘‘ سے جاملتا ہے جن کے بارے میں یہ نعرہ بہت مشہور ہوا تھا ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘۔ اب سنا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی پر بھی بھاری ثابت ہورہے ہیں اور ان کے فرزند بلاول زرداری بچاؤ کی تدبیریں سوچنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں یہ محاورہ تو بے محل ہے کہ ’’ننگی نہائے کیا نچوڑے گی کیا‘‘ لیکن اپوزیشن کی حالت دیکھ کر یہی محاورہ یاد آرہا ہے۔
دوسری طرف عمران خان اور ان کے مداری تخت اقتدار پر تو بیٹھ گئے ہیں لیکن کنٹینر سے اُترنے کو تیار نہیں ہیں وہ اپنے مخالفین کو اس طرح للکار رہے ہیں جس طرح دھرنے کے دنوں میں للکارا کرتے تھے۔ عمران خان ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کررہے ہیں کہ وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، جتنا مرضی شور مچالو کسی کو این آر او نہیں ملے گا اور اپوزیشن ان سے پوچھ رہی ہے کہ این آر او مانگا کس نے ہے؟۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اگر اپوزیشن جماعتوں سے اتحاد کی بات نہیں بن پارہی تو عمرانی حکومت بھی بات بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ؂
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے