مولانا سمیع الحق کا قتل، کیا بھارت ملوث ہے؟

491

یہ جمعرات کی بات تھی مولانا سمیع الحق ملعونہ آسیہ کی عدالتی رہائی پر احتجاجی مظاہرے سے راولپنڈی میں خطاب کررہے تھے انہوں نے اجتماع کو بتایا تھا کہ: ’’مجھے فیصلے سے چار دن پہلے عمران خان نے بلا کر پوچھا کہ آسیہ مسیح ملعونہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو میں نے فوراً کہا کہ اسے پھانسی ملنی چاہیے جس پر وزیراعظم میری منہ سے یہ بات سن کر حیران رہ گئے۔مولانا نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’توہین رسالت کا قانون اور اس کی سزا پورے یورپ کو برداشت نہیں ہو رہی ملعونہ آسیہ کو بری کرنا توہین رسالت ہے جو توہین عدالت سے زیادہ بڑا جرم ہے اس لیے یہ سزا دینے والے ججوں کو معطل بلکہ وہی سزا دینی چاہیے جو توہین رسالت کی ہے‘‘۔
مولانا سمیع الحق نے پوری ایمانداری اور دیانتداری سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ یہ بات بھلا اسلام کے مخالفین کیسے برداشت کرتے نتیجے میں وہی ہوا جو اس ملک میں سچ اور حق کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دشمن یہاں کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھا کر مولانا سمیع الحق کو ان کے گھر ہی میں قتل کرگئے۔ ایسا گھناؤنا عمل کرنے کے لیے ملک کے دشمنوں نے یہاں کے ’’اپنوں‘‘ کو کامیابی سے استعمال کرلیا۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ یہی تو کہا کرتا تھا کہ ’’پاکستان ٹھونکنے کے لیے ہمیں اپنی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اس مقصد کے لیے وہیں کے لوگوں کو استعمال کرنا چاہیے، وہاں پیسوں کے لیے کام کرنے والے بہت مل جائیں گے‘‘۔ اور پھر جمعہ کی سہہ پہر جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ سینیٹر مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملہ میں شہید کردیا گیا۔ ملک کے سیکورٹی کے ادارے دیکھتے ہی رہ گئے۔ کوئی کر بھی کیا سکتا تھا مولانا کے تحفظ کے لیے موجود ان کا اپنا گارڈ موقع موجود نہیں تھا بلکہ ایک اور ملازم بھی گھر سے باہر تھا۔ اس گھر میں مولانا اکیلے ہی رہا کرتے تھے ان کا بیٹا اور دیگر اہل خانہ ان کے ساتھ نہیں رہتے تھے۔
سمیع الحق 18 دسمبر 1937 کو خیبر پختون خوا کے علاقے اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور 2 نومبر 2018 کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ ان کے نیک ہونے کی دلیل تو یہ بھی ہے کہ وہ جمعہ کے روز اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ نماز عصر کے بعد وہ آرام کی غرض سے لیٹے ہوئے تھے کہ قاتل انہیں مار گئے۔ بزرگ مذہبی رہنما مولانا سمیع الحق کو پاکستانی قوم مذہبی اسکالر، معروف عالم اور سیاست دان کے طور پر جانتی تھی۔ وہ دو مرتبہ سینیٹ کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ ان سب خوبیوں اور اعزازات کے ساتھ وہ پڑوسی ملک بھارت کے لیے ان پاکستانی شخصیات میں شامل تھے جو اسے ’’ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے‘‘۔ بھارت مولانا سمیع الحق کو مولانا حافظ سعید کا ساتھی سمجھتا تھا حافظ سعید اور سمیع الحق اچھے دوست اور ہم وطن تھے۔ اطلاعات کے مطابق مولانا سمیع الحق راولپنڈی میں نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں رہتے تھے ان کے ذاتی گارڈ اور ڈرائیور ان کے ساتھ رہتے تھے تاہم قاتلانہ حملے کے وقت دونوں ہی گھر میں موجود نہیں تھے۔ نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کے بیٹے حامد الحق نے کہا کہ ان کے والد کو چھریوں کے وار کرکے قتل کیا گیا۔ بیٹے کا کہنا تھا کہ ان کے محافظ، جو ان کے ڈرائیور بھی تھے، نے بتایا کہ وہ کچھ وقت کے لیے انہیں کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر گئے اور جب وہ واپس آئے تو انہیں شدید زخمی حالت میں پایا۔ مولانا سمیع الحق وہ حقیقی دینی رہنما تھے جو سیاست بھی وطن پرستی کے جذبے اور اس کے تحفظ کے لیے کیا کرتے تھے۔ مولانا کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ ہر خاص و عام آدمی کی عزت کیا کرتے تھے ان کی شہادت کے واقعات پر پوری ذمے داری سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’پاکستان کے دشمن ملک کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھا گئے، دیندار وطن پرست مولانا سمیع الحق کو شہید کرنے کے لیے ملک کے دشمنوں نے مقامی افراد کو استعمال کیا‘‘۔ اللہ سمیع الحق صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔
اہم بات تو یہ بھی ہے کہ جب سب ہی جانتے تھے کہ دشمن موقع کا انتظار کررہا ہے تو آخر اہم شخصیات اور راولپنڈی جیسے حساس شہر کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کیوں نہیں کیے جاسکے؟ سمیع الحق تو شہید ہوگئے لیکن کیا ان کو اور عوام کو تحفظ دینے والے ادارے ناکام ہوگئے؟ اگر یہ یقین کرلیا جائے کہ سمیع الحق کو شہید کرنے میں پڑوسی اور دیگر ملک کے ادارے ملوث ہیں تو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ’’قاتل ادارے‘‘ نے ایک تیر سے دو نہیں دو سے زائد شکار کیے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ وہ راولپنڈی میں موجود ہیں جہاں پاک وطن کے ایک دفاعی ادارے کے دفاتر ہیں۔ سمیع الحق کو شہید کرنے والوں نے عمران خان کی حکومت کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اسے تادیر چلنے نہیں دیں گے۔ کیوں کہ پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچانے کی سازشوں میں عالمی قوتوں کا یہی تو سب سے اہم ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم عمران کے دورہ چین کے دوران ملک میں افراتفری اور ایک اہم شخصیت کو قتل کرکے ملک کو ناکام ریاست ظاہر کرنا ہی تو دشمنوں کا مقصد ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ چین کے دوران سمیع الحق کا قتل دراصل غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے یہ پیغام بھی ہے کہ وہ پاک چین دوستی برداشت نہیں کریں گے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ ملک میں مذہبی انتشار پھیلانے کی بھی کوشش کی جائے گی اس مقصد کے تحت کسی اہل تشیع عالم کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے۔ اسی لیے صرف حکمرانوں ہی کو نہیں بلکہ اپوزیشن اور اہم اداروں کو ملک کی ترقی اور تحفظ کے لیے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ تمام طبقات کی اہم شخصیات کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ان کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سی پیک منصوبے کے لیے مصروف تمام چینی باشندوں کی بھی خاص طور پر حفاظت کرنی ہوگی۔ ایسے حالات میں وزیراعظم کو چاہیے کہ وزارت داخلہ کا قلمدان کسی باصلاحیت رکن اسمبلی یا سینیٹر کو دیں تاکہ وہ مکمل توجہ سے ملک کی امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے توجہ دے سکے۔ ابھی وزارت داخلہ کا قلمدان وزیراعظم عمران خان نے اپنے پاس ہی رکھا ہوا جو مناسب نہیں ہے۔