پیغمبرِ اسلام کی توہین آزادی اظہار نہیں

276

 

 

قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی کے لیے ہے‘‘۔ باطل کیا ہے؟، ہر وہ بات، عمل، انداز اور کردار جو سچائی، حقیقت اور فطرت کے بر خلاف ہو وہ سب باطل ہے۔ یہ ایک عالم گیر سچائی ہے اور اسے جھٹلانا ناممکن ہے۔ باطل جب تک فنا نہ کردیا جائے اس وقت تک ابتری، بے کیفی، بے چینی اور ہیجانیت کا خاتمہ ممکن ہی نہیں اور جب تک یہ ساری کیفیات موجود رہیں گی اس وقت تک امن اور بھائی چارگی کے قیام کو معاشرے میں ممکن بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک طویل مدت سے آزادی اظہار کے نام پر پیغمبر اسلام سیدنا محمد ؐ کی توہین ایک تسلسل کے ساتھ کی جارہی تھی۔ سوشل میڈیا اس بات پر تل گیا تھا آپ ؐ کی جس حد تک بھی ممکن ہو، تضحیک اور نعوذباللہ مذاق اڑانے کی کوشش کی جائے جس کی وجہ سے تمام عالم اسلام میں سخت غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔ ہر مرتبہ کی توہین، گستاخانہ خاکوں اور تحریروں کے بعد پورے عالم اسلام میں ایک ہلچل مچ جاتی تھی، جلوس نکالے جاتے تھے، جلسے ہوتے تھے اور دنیا کے کونے کونے میں صدائے احتجاج بلند کی جاتی تھی۔ اس احتجاج میں صرف مسلمان ہی شریک نہیں ہوتے تھے بلکہ حقیقت کو سمجھنے والے اور زمینی حقائق پر نظر رکھنے والے غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہم زبان بن جایا کرتی تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ پاک ہستیوں کے خلاف کسی بھی قسم کی تضحیک ایک ایسا عمل ہے جو فطرت انسان کی برداشت سے باہر ہے۔
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نہ صرف اب تک بھیجے جانے والے تمام انبیا علیہ السلام کو مانتا ہے بلکہ وہ دیگر مذاہب کے مذہبی پیشواؤں کی عزت و احترام کو بھی نہ صرف دل سے تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کی بھی وہی عزت و تعظیم کرتا ہے جو اللہ کے ولیوں اور پیغمبروں کی جاتی ہے۔ جس انداز میں رسول اکرم ؐ کی توہین کی جاتی رہی اس کے جواب میں مسلمانان عالم وہ سب کچھ نہیں دہرا سکتے تھے جو کچھ ’باطل‘ کررہا تھا کیوں کہ ہر پاک ہستی مسلمانوں کے لیے محترم اور قابل تعظیم سمجھی جاتی ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین کے جواب میں دیگر مذاہب کی پاک ہستیوں یا ان کے رسولوں اور پیغمبروں کی تضحیک کی جاتی۔ ممکن ہے توہین کے جواب میں وہ منتظر ہوں کہ مسلمان بھی ان کے رسولوں اور پیغمبروں کی تضحیک پر اتر آئیں اور ان کو اس بہانے فتنہ و فساد مچانے کا موقع مل جائے لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں نے ان کی پستی تک گرجانا گوارہ کرنے کے بجائے احتجاج کی راہ اختیار کی اور کسی بھی متشددانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے دنیا بھر میں پر امن صدائے احتجاج بلند کی جس کا آخرکار اللہ کے فضل و کرم سے ایک اچھا نتیجہ نکل آیا اور دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ ہر قسم کی بے غیرتی کو اظہار رائے کے حق کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو نوید ہو کہ ان کی آواز احتجاج اور اس سلسلے میں ان کی جدوجہد رنگ لے آئی۔ خبروں کے مطابق ’’یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے، اور اس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ یہ فیصلہ عدالت نے جمعرات کے دن پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے والی آسٹریا سے تعلق رکھنے والی خاتون کے خلاف سزا کے فیصلے کی اپیل پر صادر کیا۔ عدالت نے کہا کہ اس کے خلاف فیصلہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے‘‘۔
بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’فرانس کے شہر سٹرا سبرگ میں واقع ای ایچ سی آر نے فیصلہ دیا کہ آسٹریا کی عدالت نے خاتون کو سزا دیتے وقت ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کا بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے۔ اس خاتون نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور انہیں صرف ای ایس کہا جاتا ہے، 2008 اور 2009 میں اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات کے عنوان کے تحت مختلف تقاریر میں پیغمبرِ اسلام کے بارے میں چند کلمات ادا کیے تھے جن کی پاداش میں ان پر ویانا کی ایک عدالت میں مقدمہ چلا اور عدالت نے انہیں فروری 2011 میں مذہبی اصولوں کی تحقیر کا مجرم قرار دیتے ہوئے 480 یورو کا جرمانہ، مع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 2013 میں عدالت عظمیٰ نے بھی اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا۔ اب ای سی ایچ آر نے کہا ہے کہ آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ججوں کے سات رکنی پینل نے دیا۔ اپنے فیصلے میں ای سی ایچ آر نے کہا کہ عدالت کو معلوم ہوا کہ مقامی عدالتوں نے سائل کے بیانات کا بھرپور جائزہ لیا اور انہوں نے ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کو حق کے درمیان بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے، اور آسٹریا میں مذہبی امن و امن برقرار رکھنے کے جائز حق کی پاس داری کی ہے۔ اس کے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق 10 کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں‘‘۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے جس عدالت نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے وہ عدالت کل 47 ججوں پر مشتمل ہے جن کے نام یورپی یونین کے رکن ممالک تجویز کرتے ہیں جب کہ ان کا انتخاب کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کرتی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں یہ بات بھی درج کی گئی ہے کہ ’’ای ایس نامی آسٹرین خاتون نے اسی سلسلے میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ آسٹریا کی مقامی عدالتوں نے ان کے آزادیِ اظہار کے بنیادی حق کا تحفظ نہ کر کے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ مقدمہ انسانی حقوق کی شق 10 کے تحت درج کیا گیا تھا تاہم ان کی اپیل مسترد ہو گئی‘‘۔
یہ شق نمبر 10 کیا ہے؟، شق نمبر 10 میں جہاں آزادی رائے کا حق دیا گیا ہے وہیں دوسرے حصے میں آزادیِ اظہار پر قدغنیں بھی لگائی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ آزادیِ اظہار کے ساتھ فرائض اور حقوق بھی شامل ہیں، اور یہ آزادی کسی جمہوری معاشرے کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے رسوم، حالات، ضوابط کے ماتحت ہے اور اس کی آڑ میں کسی کے جذبات مجروح نہیں کیے جا سکتے۔ ممکن ہے کہ یہ فیصلہ آنے کے بعد یہ تحریک بھی چلائی جائے کہ یورپین ممالک بہت معتدل مزاج ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی متعصبانہ اور امتیازی رویے کو اپنا شعار نہیں بناتے۔ مان لیتے ہیں کہ اس فیصلے کی روشنی میں ایسا کہنا اور سمجھ لینا درست ہی ہے اور ہم (مسلمان) اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ یورپ معتدل پسند، آزاد خیال اور ہر قسم کی آزادی کا قائل ہے اور پوری دنیا کے مذاہب اور انسانوں کے ساتھ اس کا رویہ غیرامتیازانہ ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیوں کہ ہر معاملے میں ان کے دہرے معیارات واضح اور صاف صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس فیصلہ پر مسلمان خوش سہی اور ہونا بھی چاہیے اس لیے کہ وہ آپ ؐ کی ہستی پر کوئی سمجھوتا کر ہی نہیں سکتے تھے لیکن اس مقدمے کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آجانا محض اس لیے ہے کہ بے شک پوری دنیا میں مسلمان ہر معاملے میں منقسم ہیں لیکن توہین ذات اقدس ؐ پر دنیا کا ہر مسلمان ایک آواز تھا جو دنیائے کفر کے لیے ایک خوفناک بات تھی۔ دنیا اچھی طرح اس بات سے واقف ہے کہ مسلمان ان کے (یورپ اور امریکا کے) ملکوں میں کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں۔ وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ وہ کتنے ہی منقسم کیوں نہ ہوں لیکن آپ ؐکی ذات پر گناہگار سے گناہگار مسلمان بھی ایمان پر جان کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ وہ واقف تھے کہ اگر بات بڑھ گئی تو پھر خود ان کے ملکوں میں امن و امان کی صورت حال تہہ و بالا ہوکر رہ جائے گی اس لیے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ آنا ان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں تھا۔
یہاں اس بات کو سمجھنا تمام مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ دفاعی لحاظ سے مسلمانوں کو مضبوط ہونا بے شک بہت ضروری سہی لیکن اگر اپنے اپنے سارے چھوٹے بڑے اختلافات بھلا کر وہ سب ایک صفحے پر جمع ہوجائیں تو دنیا کا خطرناک سے خطرناک ہتھیار رکھنے والا ملک بھی ان کے آگے ریت کی دیوار بن جائے گا۔ اقبال ؒ نے کیا سچی بات کہی ہے کہ
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مسلم ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
لہٰذا پوری دنیا میں اپنے حقوق منوانے اور اسلام کو غالب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ (اقبال)
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر