بیوٹی پارلر کو عربی میں ’’صالون التجمیل‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے پاس کسی سیاہ فام کو گورا بناکر پیش کرنے کا مواد اور فن ہوتا ہے، تجمیل کا انگریزی متبادل Beautification یعنی آرائش وزیبائش ہے، اسے ملمّع کاری بھی کہہ سکتے ہیں یعنی لوہے یا چاندی پر سونے کی قلعی چڑھاکر اُسے سونا بناکر پیش کرنا۔ ذرا سوچیے! اگر ایک ہی بیوٹی پارلر میں ایک ہی کریم سے ایک چہرے پر ملمّع کاری کی جائے تو وہ حسینِ عالَم بن جائے اور دوسرا اُسی عمل سے گزرے تو اس کے حصے میں ’’روسیاہی‘‘ آئے، یہ کہاں کا انصاف، یہ تو دہرا انصاف ہے۔
میں وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر احمد باجوہ سے نہایت دردمندی کے ساتھ چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں: (الف): ہر ایک کو معلوم ہے کہ ریاست کے پاس طاقت ہوتی ہے، ملٹری اور پیراملٹری فورسز ہوتی ہیں، سیکورٹی کے ادارے ہوتے ہیں، ہر طرح کا جدید ترین اسلحہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ اپنے لوگوں پر برسانے کے لیے نہیں ہوتا، سوا اس کے کہ کوئی چارۂ کار نہ رہے، اُس سے پہلے کئی مراحل صبر وتحمل سے طے کرنے ہوتے ہیں۔ ماضی میں ایک سو چھبیس دن تک، کبھی کم اور کبھی زیادہ دنوں کے لیے دھرنے ہوئے، عام شاہراہیں تو درکنار حساس مقامات محصور ہوئے، دھرنے کے سبب چین کے صدر کا دورہ منسوخ ہوا۔ کیا اس وقت عوام کو مشکلات درپیش نہیں ہوتی تھیں، اس وقت روز مرہ روزی کمانے والوں کے لیے مسائل نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر چڑھائی کی گئی، ریاست کو ٹیکس نہ دینے کی ترغیب دی گئی، کیا اُس وقت آئین وقانون میں ان سب چیزوں کی گنجائش تھی، جو آج مفقود ہوگئی ہے۔ کیا اُس وقت یہی ریاست اور یہی آئین وقانون ملک پر حاکم نہیں تھا اور یہی عدالتیں رو بہ عمل نہیں تھیں۔ اُس وقت تو تحمل سے کام لیا گیا، آج چند گھنٹوں میں صبر کا دامن چھوٹ گیا، یہی تضادات بے اعتمادی کو جنم دیتے ہیں، اس کے نتیجے میں حکومت اور اداروں کی غیر جانبداری پر اعتماد اٹھ جاتا ہے، شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔ حالات کی سنگینی کا ہمیں بھی احساس ہے، لیکن ہر مشکل کا حل مارو اور چڑھ دوڑو نہیں ہوتا، جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے موقع دیا جاتا ہے، با اختیار لوگ مائل بہ احتجاج لوگوں سے مکالمہ کرتے ہیں، اولین ترجیح پرامن حل ہوتا ہے، اگر طاقت مسائل کے حل کی پہلی اینٹ ہے، تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
ماضی میں عمران خان ایک عرصے تک ریاست کے مقابل ہتھیار اٹھانے والے عناصر یعنی طالبانِ پاکستان سے مکالمے کے داعی تھے، اُن کے دفاتر کھولنے کی بات کرتے تھے، حالاں کہ وہ ہمارے ہزاروں لوگوں کو شہید کرچکے تھے، کیا وہ ریاست کوئی اور تھی، آج کی ریاست کوئی اور ہے، وہ یہی اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا، کیا آج حکومت ان تمام مراحل سے گزر چکی ہے۔ آپ کا تجزیہ اور آپ کی رائے کچھ بھی ہو، یہ آپ کا حق ہے، لیکن مسلمانوں کی اکثریت کی سوچ اس دینی حساسیت کے حوالے سے آپ سے مختلف ہے، آپ انہیں جذباتی اور مغلوب الغضب کہہ سکتے ہیں، لیکن طاقت سے ذہنوں کے سانچے اور سوچ کے زاویے یک دم بدلے نہیں جاسکتے۔
آپ نے جارحانہ انداز میں خطاب کیا، یہ موقع کی مناسبت سے درست نہیں تھا، حاکمِ وقت تو مربّی ہوتا ہے، وہ رعایا کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہے، ایک دم کریک ڈاؤن نہیں کیا جاتا، اس کے نتائج وعواقب کسی بھی حکومت کے لیے خوش گوار نہیں ہوتے۔ بعض اوقات ناخوشگوار باتیں بھی سننی اور برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ایک دوسرے کو چور، ڈاکو، لٹیرے اور جعلی حکمران کہنا، کیا یہ سب اعزازی کلمات آئین میں لکھے ہوئے اور آئین وقانون کی روح کے مطابق ہیں، کیا آج فواد حسین چودھری نے وہی موقف اختیار نہیں کیا جس کا پرچم نواز شریف بلند کر رہے تھے، لیکن جب جرم ایک اور فیصلے مختلف ہوں، تو سوال اٹھتا ہے، ولی دکنی نے کہا تھا:
پہلے جو آپ کہہ کر بلاتے تھے، اب وہ تو کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں
پہلے تھے میخانہ میں، آج ہیں مسجد میں ولی
عمر کے ساتھ مقامات بدل جاتے ہیں
چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے فرمایا: ’’عثمان بزدار پر آرٹیکل 62/1F لگتا تھا، لیکن ہم نے نظام کے تسلسل کی خاطر نرمی برتی‘‘۔ عاجزانہ سوال ہے: کیا نظام کے تسلسل کا تقاضا ماضی میں نہیں تھا، عدالت ایک ہے، آئین وقانون ایک ہے، ریاست ایک ہے، لیکن معیارات مختلف ہوجاتے ہیں، آسیہ مسیح کی پٹیشن کو Time-Bar یعنی مابعد الوقت ہونے کے باوجود قبول کرلیا گیا، اور بھی کئی رعایتیں دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا: ’’یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کلیم کرتا ہے اس کو ثابت بھی کرنا اس کی ذمے داری ہوتی ہے۔ پس یہ استغاثہ کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر بنیاد پر ہر طرح کے شک وشبہ سے بالاتر ہو کر ملزم کے خلاف جرم کا ارتکاب ثابت نہ کر دے۔ شفاف سماعت مقدمہ جو ازخود فوجداری اصول قانون کا بنیادی جُز ہے، اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک منصفین خود واضح طور پر اس معیار ثبوت کے بنیادی نظریے کی توجیح نہ کریں گے جس پر کاربند ہونا استغاثہ کے لیے سزا کے احکامات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ دو نظریات یعنی شک وشبہ سے بالا تر ہوکر ثابت کرنا (A Proof Beyond Reasonable Doubt) اور قیاسِ بے گناہی (A Presumption Of Innocence) ایک دوسرے سے اس قدر منسلک ہیں کہ ان کو ایک ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ اگر قیاس بے گناہی فوجداری اصول قانون کی طلائی کڑی (اصول) ہے تو شک وشبہ سے بالاتر ہوکر ثابت کرنا نقرئی کڑی (اصول) ہے اور یہ دونوں کڑیاں ہمیشہ سے ہی فوجداری نظام انصاف کے بنیادی ڈھانچے کا اہم حصہ رہی ہیں۔ جیسے اصول شک وشبہ سے بالا تر ہوکر فوجداری انصاف کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، یہ ان اصولوں میں سے ایک ہے جو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ کسی معصوم کو سزا نہ ہو، جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے، اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے جو فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مزید برآں شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بار ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ملزم اور گواہان؍شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین معیار ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر استغاثہ کے گواہان ملزم کے لیے عناد رکھتے ہوں تو وہ شک کے فائدے کے اصول کی بناء پر بریت کا حقدار ہوتا ہے‘‘۔
حضور والا! بصد ادب گزارش ہے: اگر یہ فلسفۂ قانون لفظاً اور معناً پورے نظامِ آئین وقانون پر نافذ کردیا جائے، تو نیب کی اساس ہی ختم ہوجاتی ہے، وہاں تو آغاز ہی اس سے ہوتا ہے کہ آپ مجرم ہیں، اسے آنکھیں بند کر کے تسلیم کریں، ورنہ اپنی بے گناہی ثابت کریں، جو گناہگار اور بے گناہ سب کے لیے مشکل کام ہے،
ہاں! وقتی طور پر جس کی گردن پھنس جائے، فیاض چوہان کو اس کی چیخیں مریخ پر سنائی دیتی ہیں، کیوں کہ اس وقت اقتدار کی برکت سے اہلِ زمین حضرت کے پاؤں تلے ہیں اور وہ خود فضاؤں کی بلندیوں میں رہتے ہیں اور خلائی آوازیں بھی بآسانی سن لیتے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’اگر ہمارا مذہب اسلام، توہین کے مرتکب شخص کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے تو اسلام اس شخص کے خلاف بھی اتنا ہی سخت ہے جو جرم کے ارتکاب کے متعلق جھوٹا الزام لگائے۔ لہٰذا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی معصوم شخص کو جھوٹے الزام کی بنا پر تفتیش اور سماعت کا سامنا نہ کرنا پڑے، (پیراگراف: 15)‘‘۔ اگر ہمارا آئین قرآن وسنت کے مطابق ہے، تو ایک دینی طالب علم کی حیثیت سے جتنا ہمارا مطالعہ ہے، قرآن وسنت میں یہ معیار کہیں نہیں ہے، سوائے کسی پر زنا کی تہمت لگانے کے، تو کیا قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت اتنا بے توقیر قانون ہے کہ اس کے لیے روز ضابطوں کی نئی زنجیریں کسی جائیں۔ حضور والا! بعض صورتوں میں شہادت فی نفسہٖ درست ہوتی ہے، لیکن بوجوہ یا ماہر وکلا کی طلاقتِ لسانی سے وہ عدالت کے معیار پر پورا نہیں اترتی اور فرض کیجیے: قتل کے مقدمے میں حقیقتاً عینی شاہدوں نے گواہی دی، مگر وہ گواہی عدالت کے معیار پر پورا نہ اتری اور رد ہوگئی، تو کیا ان گواہوں کو پھانسی پر چڑھادیا جاتا ہے یا یہ امتیازی سلوک صرف قانونِ تحفظ ناموسِ رسالت کے لیے اختیار کرنے کے بار بار مشورے دیے جاتے ہیں، باقی نظامِ آئین وقانون کی تنفیذ میں کہیں کوئی خرابی نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ہے۔
فیصلے میں لفظِ ’’معصوم‘‘ استعمال کیا گیا ہے، یہ ہمارے ہاں اکثر بولا جاتا ہے، اس کا انگریزی متبادل ’’Innocent‘‘ ہے، اسلامی عقائد میں عصمت خاصّہ نبوت ہے، صرف ملائکہ اور انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں۔ معصوم اُسے کہتے ہیں: ’’جس سے گناہ کا صدور محال ہو‘‘، کیوں کہ اگر نبوت کی عقل، گفتار اور افعال کو معصوم نہ مانا جائے، تو وحیِ ربانی کی حقانیت پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں، اسے عقل کی میزان پر پرکھ کر ردّ کرنے کی الحادی روش پروان چڑھتی ہے اور ماضی میں ایسے الحاد کی مثالیں موجود ہیں۔ لہٰذا عام انسانوں کے لیے معصوم کے بجائے ’’بے قصور‘‘ کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے، بے خطا کا لفظ استعمال کرنا بھی درست نہیں ہے، کیوں کہ عام انسانوں میں شاید ہی کوئی نادر ونایاب مثال ملے کہ کوئی شخص خطا سے بالکل پاک ہو۔ البتہ کسی خاص واقعے کے تناظر میں اگر کسی نے غلطی کا ارتکاب نہیں کیا، تو اُس سیاق وسباق میں اُسے بے خطا کہہ سکتے ہیں، لیکن عمومی طور پر نہیں۔ غازی علم الدین کے یومِ شہادت کو آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے لیے منتخب کرنا مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کے مترادف ہے، اللہ جانے یہ انتخاب کس نے کیا، غازی علم الدین کے وکیل تو بانی پاکستان تھے، اُن کی روح پر کیا گزری ہوگی۔