مولانا سمیع الحق کی شہادت ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں کے کارکنوں کا بہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی شاید ہی ہوسکے 81 برس کی عمر میں شہادت کا بلند مرتبہ ان کے نصیب میں تھا‘ مولانا سمیع الحق کی شہادت عمران خان کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مولانا سمیع الحق نیا پاکستان کی ریاست مدینہ کا پہلا شہید ہے جو اس حکومت کے لیے آزمائش اور امتحان ثابت ہوگا وہ ایک متحرک دینی اور سیاسی رہنماء تھے‘ طالبان میں ان کا بہت اثرو رسوخ تھا‘ افغانستان میں طالبان حکومت کے بانی ملا عمر بھی ان کے شاگرد تھے اور متعدد مجاہدین نے ان کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ سے دینی تعلیم حاصل کی‘ مولانا سمیع الحق شہید ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ ایک جید عالم دین ہونے کے علاوہ سیاست میں بھی سرگرم تھے ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ماہنامہ الحق شائع کرتے تھے مولانا سمیع الحق اسے اعزازی ارسال کرتے تھے ابھی حال ہی میں ان کی ڈائری پر مشتمل کتاب چھاپنے کی تیاری بھی ہورہی تھی۔
نائن الیون کے بعد جب طالبان امریکی اور اتحادی افواج کے نشانے پر تھے تو دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھا۔ لوگ اس درس گاہ کو دیکھنا چاہتے تھے جہاں سے طالبان نے جنم لیا تھا حامد الحق کی شادی میں اسامہ بن لادن نے بھی شرکت کی تھی مولانا فضل الرحمن بھی ان کے مدرسے میں طالب علم رہے ہیں مولانا جنرل ضیاء الحق کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے‘ بعد میں آئی جے آئی کی تشکیل ہوئی تو اس کے مرکزی رہنماء بھی رہے آئی جے آئی میں یہ اصول طے تھا کہ اتحاد کی رکن جماعتوں کے سربراہ باری باری اس کے سربراہ بنیں گے تاہم جب ان کی باری آئی تو انہوں نے نواز شریف کو آئی جے آئی کا سربراہ بنائے جانے کی تجویز دی‘ مولانا سینیٹ آف پاکستان کے بھی رکن رہے جب کبھی غیر ملکی دورے پر جاتے تو مشاہد حسین سید ان کی مترجم ہوتے‘ اخبار نویسوں سے ان کی بہت دوستی تھی‘ ان سے کھلی گفتگو کرتے تھے وہ خشک مزاج نہیں تھے سنجیدہ موضوع پر دلیل کے ساتھ گفتگو کرتے اور دوسروں کو قائل کرلیتے‘ انہوں سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں میں بھی کام کیا‘ ان کا ساتھ بھی دیا‘ ناراض بھی ہوئے‘ یہ کیفیت ہمیشہ معما رہی۔ جب بھی مولانا کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ کی بات ہوگی اور ان کے زندگی کے اہم اور غیر اہم واقعات بیان کیے جائیں گے لیکن اب مولانا چوں کہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں لہٰذا تاریخ خود ہی انہیں بیان کرے گی۔
مولانا سمیع الحق متحدہ مجلس عمل کے بانی ارکان میں سے تھے‘ ان کی سیاسی زندگی میں آئین میں ترمیم کے لیے آٹھویں اور سترویں آئینی ترمیم کے دو اہم ترین آئینی پیکیج آئے‘ آٹھویں آئینی ترمیم کے لیے انہوں نے بہت کردارادا کیا لیکن آئین کی سترویں ترمیم کے وقت وہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت کے ساتھ متفق نہیں ہوئے اور خاموشی کے ساتھ الگ ہوئے‘ تاہم ان کی جماعت کے کچھ ارکان نے جے یو آئی (سینئر) بنالی اور متحدہ مجلس عمل کی آئینی ترمیمی پیکیج پر دستخط کیے مولانا سمیع الحق تمام عمر اللہ کی راہ میں اپنے علم و عمل سے جہاد کرتے رہے افغان جہاد میں ان کا بہت اہم کردار تھا افغان طالبان میں ان کا احترام کیا جاتا تھا اور مجاہدین میں ان کا اثر، رسوخ تھا مولانا سمیع الحق پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ایک مضبوط رابطہ تھے ان کا موقف بھی یہی تھا کہ امریکی فوجوں کے افغانستان سے نکلنے تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا یہ ایک عجیب بات ہے کہ جب بھی طالبان مذاکرات کے لیے آمادہ ہوئے کوئی بڑا سانحہ ضرور ہوا جس سے مذاکرات متاثر ہوئے۔
حالیہ دنوں میں جب ملعونہ آسیہ سے متعلق عدلیہ کا فیصلہ آیا تو اس فیصلے پر بھی مولانا کا ایک موقف تھا انہوں نے بریت کی کھل کر مخالفت کی مولانا سمیع الحق نے حکومت کو بھی کوئی دباؤ قبول نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا آسیہ کی بریت کے فیصلے کے تین روز بعد ہی مولانا سمیع الحق حادثے کا شکار ہوگئے آسیہ کے معاملے پر عمران خان سے ان کی جو بھی گفتگو ہوئی اس کا راز اپنی سینے میں لے کر وہ دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں مولانا سمیع الحق کو جس طرح قتل کیا گیا اس نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ ایک یہ کہ کیا قاتل جان پہچان کے لوگ تھے مولانا مرحوم راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن میں مقیم تھے وہاں خفیہ کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں ان سے قاتلوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ افغان حکومت کی طرف سے بھی دھمکیاں مل رہی تھیں اور خفیہ ایجنسی نیشنل ڈیفنس سروس بھی ان کے تاک میں تھی بہر حال دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق ایک دبنگ آواز تھی جو اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین