نیا کراچی بمقابلہ پرانا کراچی !

259

 

 

آئیے پرانے کراچی کو اس تحریر کے ساتھ موجودہ کراچی کو دیکھ کر آنسو بہاتے ہیں۔ اس کے سوا ہم اور کیا کرسکتے ہیں؟۔ میئر کراچی وسیم اختر تو اپنے دائرہ کار میں رہ کر اس ’’نیک کام‘‘ کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے سے گریز کررہے ہیں جس سے ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں خاندانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ نجانے کیوں میئر کنٹریکٹ ملازمین کو عدالت عظمیٰ اور حکومت کے احکامات کے باوجود مستقل کرنے سے گریز کررہے ہیں؟ حالاں کہ ان کی ٹیم اور ماتحت محکمے نے ایسے ملازمین کو ریگولر کرنے کے لیے تمام کام مکمل کرلیا ہے۔ اگر اس نیک کام میں بھی وسیم اختر محکمہ باغات اور انجینئرنگ کے امور کی طرح جلدی کرتے تو انہیں اس کام کا اجر ملنا شروع ہوجاتا چوں کہ کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہیں بھی بند کردی گئیں ہیں اس لیے متاثر ہ خاندانوں کے جو مالی حالات ہوں گے وہ اللہ اور مذکورہ افراد ہی جانتے ہوں گے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں 1960 کی دہائی کے کراچی کا۔
یہ کراچی اس وقت ملک کا دارالحکومت تھا۔ کراچی کی یہ کہانی میں نے شہریوں کی دلچسپی کے لیے سوشل میڈیا سے کی ہے۔ اس لیے اس کے مصنف کا علم نہیں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ میرے ایک دوست وصی عثمانی نے پوسٹ کی تھی۔ کراچی کیا تھا‘ یہ مجھے ایک سابق امریکی سفارت کار نے بتایا‘ میں 2002ء میں سیر کے لیے امریکا گیا‘ میرے دوست مجھے نیویارک میں ایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے‘ یہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک پاکستان میں تعینات رہا اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد پاکستان سے لاطینی امریکا منتقل ہو گیا‘ یہ 2002ء سے ریٹائر زندگی گزار رہا ہے میں اس کی اسٹڈی میں اس کے سامنے بیٹھ گیا‘ وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا‘ اس نے بتایا کراچی60ء کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ پرامن ترین شہر تھا‘ دنیا جہاں کے سفارت کار‘ سیاح اور ہپی شہر میں کھلے پھرتے تھے‘ ہوٹلز‘ ڈسکوز اور بازار آباد تھے‘ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں تھا‘ پی آئی اے دنیا کی چار بڑی ائر لائینز میں آتی تھی‘ یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ عرب ممالک‘ سوویت یونین‘ جاپان اور بھارت جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے‘ شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں‘ حکومت نے زیر زمین ٹرین کے لیے شہر میں کھدائی مکمل کروا دی تھی اور یوں کراچی ایشیا کا پہلا شہر بننے والا تھا۔ جس میں میٹرو کی سہولت ہوتی‘ کراچی کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی تھیں‘ ہم تمام سفارت کار کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے‘ کراچی کے بیچ (ساحل) بھی لاجواب تھے‘ ہم گورے ہفتہ اور اتوار کا دن ساحل کی گرم ریت پر لیٹ کر گزارتے تھے‘ ہم ساحل کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی چلاتے تھے‘ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہاز آتے تھے اور ان بحری جہازوں کے ذریعے ہزاروں مسافر کراچی آتے تھے‘ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا‘ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے‘ استنبول سے تہران‘ تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے تھے‘ کراچی میں رک کر ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے تھے اور وہاں سے سری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان تک پہنچ جاتے تھے۔
کراچی میں دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں‘ میں نے زندگی کا پہلا ٹیپ ریکارڈر‘ پہلا رنگین ٹی وی اور پہلا ہیوی موٹر بائیک کراچی سے خریدا‘ کراچی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان‘ یورپ اور امریکا سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے سیٹھ باقاعدہ بولی دے کر یہ گاڑیاں خریدتے تھے‘ کراچی کا ریلوے اسٹیشن دنیا کے بہترین اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا‘ ٹرینیں جدید‘ صاف ستھری اور آرام دہ تھیں اور ٹرینوں کے اندر کھانا بھی صاف ستھرا اور معیاری
ملتا تھا‘ ہم میں سے زیادہ تر سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتے تھے‘ ہم لوگ کراچی میں پراپرٹی خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے‘ شہر صاف ستھرا تھا‘ فضا بہت اچھی تھی‘ سردیوں اور گرمیوں دونوں میں درجہ حرارت معتدل رہتا تھا‘ بیورو کریسی پڑھی لکھی۔ محب وطن اور کوآپریٹو تھی اور حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ تھے‘ میں نے ایوب خان کے ایک مشیر کے گھر اپنی زندگی کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری دیکھی تھی‘ لوگ بہت مہمان نواز تھے‘ شہر میں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں تھا‘ کراچی کے کسی سفارت خانے کے سامنے سیکورٹی گارڈ یا پولیس نہیں ہوتی تھی‘ ہم اپنے ہاتھ سے سفارت خانے کا گیٹ کھولتے تھے اور یہ گیٹ خود بند کرتے تھے‘ پاکستان کے لیے کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی‘ پاکستانی شہری جہاز میں سوار ہوتے تھے‘ یورپ کے ممالک میں اترتے تھے اور انہیں ائرپورٹ پر ویزہ مل جاتا تھا‘ اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے‘ پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول کے لیے اپنے خوش حال ہونے‘ صاحب جائداد ہونے اور سفر کی وجوہ کے ثبوت دینا نہیں پڑتے تھے۔ چناں چہ پاکستان کے جس شہری کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا‘ اس کا مطلب ہوتا تھا ‘وہ صاحب حیثیت جینوئن مسافر ہے لہٰذا تمام ممالک اسے ’’آن ارائیول‘‘ ویزہ دے دیتے تھے۔ پاکستان کا معیار تعلیم پورے خطے میں بلند تھا‘ طالب علم یورپ‘ عرب ممالک‘ افریقا‘ مشرق بعید‘ ایران‘ افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوجاتے تھے‘ امریکا اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لیے پاکستان کا رخ کرتے تھے‘ کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر‘ طبیب اور پروفیسر تھے‘ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدید اور فول پروف تھا‘ بجلی‘ ٹیلی فون اور گیس کا انتظام بہت اچھا تھا‘ سیوریج سسٹم شاندار تھا‘ کراچی میں بارش کے آدھ گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہو جاتی تھیں‘ روزگار کے مواقع عام تھے‘ فیکٹریاں لگ رہی تھیں اور مال ایکسپورٹ ہو رہا تھا‘ ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا چناں چہ کراچی کی چھتوں پر انٹینوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عہدیدار اس وقت امریکی ایمبیسی آتے تھے اور ہمیں کہتے تھے تم کسی طرح پاکستانی حکومت کو قرضہ لینے پر مجبور کرو‘ ہم وزیر خزانہ سے بات کرتے تھے تو وہ کہتا تھا ’’ہمیں ضرورت ہی نہیں‘ ہم پیسے لے کر کیا کریں گے‘‘۔ یہاں پہنچ کر امریکی سفارت کار نے لمبی آہ بھری اور حسرت سے کہا ’’ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کراچی 1980ء تک پہنچ کر دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا یا لندن اور نیویارک اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا‘‘۔ اس کے بعد اس سفارت کار نے ایک اور لمبی آہ بھری اور کہا ’’میں آج ٹی وی پر کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کیا واقعی یہ وہی شہر ہے جہاں میں پندرہ سال رہا اور میں جسے دنیا کا شاندار ترین شہر سمجھتا تھا‘‘۔
ہماری گفتگو ختم ہو گئی لیکن دکھ کا نہ ختم ہونے والا احساس میرے ساتھ چپک گیا اور میں جب بھی کراچی کے بارے میں کوئی خبر پڑھتا تو مجھے اس سفارت کار کی باتیں یاد آ جاتیں اور میں سوچتا‘
ہم نے ملک کو کیا سے کیا بنا دیا لیکن میرا یہ دکھ کل ماتم میں تبدیل ہو گیا کیوں کہ میں نے پڑھا کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کا شمار اب بغداد‘ این ڈی جامینا (چاڈ)‘ عابد جان (آئیوری کوسٹ)‘ کابل‘ کنساشا (کانگو)‘ تبلیسی (جارجیا)‘ صنعا‘ نیروبی اور کونا گری (گنئی) میں ہوتا ہے‘ کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے‘ کراچی میں پچھلے دو برسوں میں صرف چھ سو غیر ملکی آئے ہیں اور یہ بھی سرکاری مہمان تھے اور انہیں بھاری سیکورٹی میں ہوٹل اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پہنچایا گیا۔
کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہو چکا ہے‘ اس کے ساحل‘ فضا اور سڑکیں آلودگی کی انتہا کو چھو رہی ہیں‘ بارش کے بعد شہر میں نکلنا محال ہو جاتا ہے جب کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ ہاتھ میں سستا موبائل‘ جیب میں اضافی پرس جس میں تین چار ہزار روپے ہوں اور کلائی پر سستی گھڑی پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اور انہیں جس چوک پر ’’سب کچھ ہمارے حوالے کر دو‘‘ کا حکم ہوتا ہے یہ چپ چاپ اپنی گھڑی‘ اپنا پرس اور اپنا موبائل حکم دینے والے کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود مارے جاتے ہیں کیوں کہ لٹیرے صرف مال نہیں چھینتے بلکہ انہیں جان لینے کا مینڈیٹ بھی ہوتا ہے۔ کراچی شہر میں عام بڑی شاہراہوں تک پر سفر محال ہے‘ گاڑیاں چھیننا‘ موٹرسائیکل لے لینا اور کسی بھی راہ گیر کو اغوا کر لینا عام ہے‘ کراچی میں لاشوں کا موسم آتا ہے تو درجنوں نعشیں گر جاتی ہیں۔ شہر چار قسم کے مافیاز اور بھتا گیروں میں تقسیم ہے اور ہر گروپ قانون اور حکومت سے مضبوط ہے اور حکومت کسی گروپ کے اشتہاری کو گرفتار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی‘ 12 ربیع الاول اور محرم شہر پرخوف بن کر آتے ہیں‘ شہر کے تاجر اور صنعت کار حکومت کے بجائے مافیاز کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ جب تک ٹیکس دیتے رہتے ہیں یہ‘ ان کا مال‘ ان کا خاندان اور ان کی فیکٹری بچی رہتی ہے لیکن یہ جس دن اپنی مجبوری کا رونا روتے ہیں۔ یہ اس کے بعد باقی زندگی رو رو کر گزارتے ہیں۔ یہ تو تھی وہ کہا نی جو میں نے ’’لفٹ‘‘ کی ہے۔ لیکن رکیے اس کہانی کے آخری دو پیرا گراف کے حالات اب وہ نہیں رہے۔ اب یہاں لاشیں گرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا (اللہ کرے کہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہو) الحمد للہ یہ سب رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مسلسل محنت اور قربانیوں کی بدولت ہوا ہے۔ اب جو بھی کچھ باقی رہ گیا ہے وہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور وہ ہے کرپشن۔
میں پوری ذمے داری کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ 1960 کی دہائی میں کراچی مثالی خوبصورت اور پرامن تھا تو اس کی وجہ پاکستان بنانے والے اور بھارت سے آکر کراچی میں بسنے والے لوگ تھے۔ کراچی والے تو بلاوجہ ہی بدنام ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کی تنزلی کا عمل اس کی ترقی کے ساتھ اس وقت شروع ہوا جب ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ کراچی کے پکے مکانات یا سرکار کے دیے ہوئے کوارٹرز میں بسنے اور رہنے والے کراچی کو نقصان پہنچانے کی وجہ نہیں ہیں بلکہ اس شہر میں کچی آبادیوں کو بسانے اور بسنے والوں کی اکثریت کی وجہ سے اسے نقصان پہنچنے لگا۔ اس کی تباہی میں کسی چودھری نذیر حسین کے بیٹے کا ہاتھ تو ہوگا جس نے اپنے آپ کو مہاجروں کا لیڈر ظاہر کرکے ان کی ایک پوری نسل خراب کردی اور اب لندن میں پاکستانی نژاد کے روپ میں برطانوی بنا بیٹھا ہے۔ کراچی ہی کیا ملک بھر میں کرپشن کے معاملات میں جو لوگ ملوث ہیں ان پر نظر ڈالیں تو بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مہاجروں کی اولادیں کرپٹ اور مجرم نہیں ہیں اور نہ تھیں بس انہیں ایک سازش کے تحت غلامانہ ذہنیت کے ایک ’’پتر‘‘ نے بنایا اور خود برطانیہ کو پیارا ہوگیا۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ پاکستان میں بسنے والی کوئی قوم بری نہیں بلکہ ان قوموں سے وابستہ اکثریت وطن پرست ہیں۔ چوں کہ کراچی میں تمام قوموں کے لوگ آباد ہیں اس لیے یہ منی پاکستان ہے۔ جو لوگ مستقل کراچی آکر اسے اپنا شہر سمجھنے لگے ہیں تو ان کو چاہیے کہ سی این آئی سی (نادرا کارڈ) میں اپنی مستقل رہائش کراچی لکھوائیں اور اپنے آبائی علاقوں کے ڈومیسائل کو منسوخ کروا دیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر جس صوبے کے وہ باشندے ہیں اس صوبے کو پر دباؤ ڈالیں کہ کراچی کو ان کے رہنے کی مد میں زرتلافی ادا کریں جو وہ صوبے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی مد میں حاصل کررہے ہیں۔
ملک میں انصاف کا نظام رائج کرنے کے دعوے اور وعدے کرنے والی حکومت کو چاہیے کہ کراچی کے ساتھ انصاف کیا جائے چاہے اسے براہ راست وفاق کے کنٹرول میں کرنا پڑے کیوں کہ یہ ڈھائی کروڑ سے زیادہ افراد کا مسئلہ ہے۔ کراچی کے ساتھ انصاف کے بغیر ملک میں انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس شہر کے ساتھ انصاف نہیں کیا جائے گا اس وقت تک کراچی، دوبارہ روشنیوں کا شہر نہیں بن سکتا۔ یاد رکھیں کہ ملک کی ترقی کا دارومدار کراچی کی ترقی پر ہے۔ کراچی تو صرف اپنا حق مانگتا ہے۔