مولانا سمیع الحق کے قاتل کا خاکہ؟

750

 

 

اکیاسی سالہ معروف اور بزرگ عالم دین اور سیاسی راہنما مولانا سمیع الحق کے قتل کردیے گئے۔ مولانا کے لواحقین نے بہت پہلے ہی قاتل کے ایک خاکہ یہ کہہ کر بنا دیا تھا کہ انہیں بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے خطرات لاحق تھے اور باقاعدہ دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ اس خاکے میں ایک رنگ کی ایک لکیر اس وقت اُبھری جب جنرل حمیدگل کے بیٹے پر اسی روز قاتلانہ حملے کی خبریں عام ہوئیں یا کردی گئیں۔ چند دن بعد ایک اور رنگ اس وقت بھر گیا جب مولانا کے تعزیتی ریفرنس میں حکومت چین کی نمائندگی کرتے ہوئے پروفیسر لی شی گوانگ نے شرکت کی بلکہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا پاک چین دوستی کے حامی تھے اور مولانا اور چین کی دوستی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس طرح خاکہ اب ہماری روایتی کاہل اور سست پولیس کے ہاتھوں تیار کردہ آڑھی ترچھی لکیروں پر مبنی مضحکہ خیز سا خاکہ نہیں رہا بلکہ اچھی خاصی تصویر بن گیا ہے۔ جسے دیکھ کر 1994میں کراچی میں قتل ہونے والے معروف صحافی اور ایڈیٹر تکبیر محمد صلاح الدین کے تعزیتی ریفرنس میں جنرل حمید گل کا ایک جملہ یاد آگیا۔ حمید گل نے بہت معنی خیز انداز میں کہا تھا کہ صلاح الدین کی یادگار گوادر میں تعمیر ہونی چاہیے۔ مولانا کی یادگار کہاں تعمیر ہو؟ شاید وقت اس مقام کی نشاندہی کرتا چلا جائے گا۔ اس قتل کے اصل محرکات اور اسباب تو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئیں گے مگر ان کے قتل کو ہارون بلور اور سراج رئیسانی کے قتل کا تسلسل قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ پاکستان میں ان نمایاں افراد کے قتل کی لڑی اور کڑی ہے جو دہشت گردی کا شکار ملک پاکستان اور مخصوص علاقوں میں ریاست دوست مانے جاتے ہیں۔ جو پاکستان میں سینہ تان کر پاکستان کی ریاست کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔ جو ریاست کو اپنے عوامی کردار سے حمایت اور طاقت فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان میں ایک ’’عرب بہار ‘‘ ٹائپ انقلاب برپا کرنا گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ اس کے لیے مختلف عناصر کو سوشل میڈیا اور دوسرے ابلاغی ہتھیاروں سے مزین کردیا گیا ہے جو کسر باقی رہ جاتی ہے وہ بیرونی میڈیا خود کوریج سے پوری کرتا ہے۔
عرب بہار نے عربوں کو انقلاب، جمہوریت، شہری آزادیوں کے سہانے خواب تو دکھائے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسے ابلاغ کا طاقتور اور وسیع پلیٹ فارم اور وسائل مہیا کیے مگر نہ عربوں کو حقوق ملے اور نہ جمہوریت اور شہری آزادیاں ہاتھ آئیں۔عرب ممالک آج بھی امن، جمہوریت، انسانی اور شہری حقوق کو ترس رہے ہیں اور ڈکٹیٹروں کے دور کا امن کا پنچھی بھی ان کے ہاتھ سے اُڑ چکا ہے۔ طاقتور بین الاقوامی میڈیا آج تک یہ سوال نہیں اُٹھا سکا کہ قذافی کے خلاف بغاوت کرنے والوں جتھوں کو جدید ہتھیار اور چمچاتی گاڑیاں فراہم کرنے والا کون تھا؟۔ یہی انداز باقی مسلمان ملکوں میں بھی اپنایا جا رہا ہے جہاں مسائل تو موجود ہیں۔ سماجی اور سیاسی اونچ نیچ قائم ہے۔ سیاسی، نسلی اور مسلکی تنوع بھی ایک حقیقت کے طور پر موجودہے۔ اس خلا اور کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حقوق کے نام پر مختلف تحریکیں کھڑی کی جارہی ہیں۔ ان تحریکوں کا انداز واسلوب چوں کہ صلح جویانہ اور خرابی کرنے کی سوچ سے قریب نہیں ہوتا اس لیے یہ تحریکیں مسلمان معاشروں کو مزید استحکام کی طرف کے جانے کا باعث بنتی ہیں۔ افغانستان کے آتش کدے کو دہکتا رکھنا بھی اسی مقصد کے لیے ضروری ہے۔ انتشار زدہ معاشرے میں امن کے نام پر قیام کرکے گردوپیش کے معاملات پر نہ صرف نظر رکھنا ممکن ہوسکتا ہے بلکہ دائیں بائیں دست درازی بھی آسان ہو کر رہ جاتی ہے۔
مولانا سمیع الحق جیسے قد آور عالم دین جنہیں مغرب بابائے طالبان کہتا تھا برملا پاکستان اور پاکستانیت کی بات کرتے تھے۔ وہ اپنے قتل کے وقت بھی دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ تھے یوں وہ پاکستان کی ریاست، حکومت اور سسٹم کی سمت کھڑے تھے۔ ان کا یہ کردار بہت سی قوتوں کو گوارا نہیں۔ مغرب انہیں ایک خوفناک کردار بنا کر پیش کرتا تھا۔ افغانستان کے حکمران اور عوامی حلقوں میں مولانا کی شخصیت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا تھا کہ گویاکہ طالبان کی وجہ سے افغان معاشرہ جن مصائب اور مشکلات کا شکار ہے ان کے اصل ذمے دار اور فکری راہنما بابائے طالبان مولانا سمیع الحق ہیں۔ اسی لیے ان سے قیام امن میں باربار مدد مانگی جاتی رہی۔ مولانا کا جو امیج افغانستان کے ایک مخصوص حلقوں میں بنایا گیا ہے اسی کا اثر تھا کہ سوشل میڈیا پر یہ حلقہ مولانا کے قتل پر سفاکانہ انداز میں جشن مسرت مناتا گیا۔ مولانا سمیع الحق اور ان کی سوچ اس خطے کے ماضی کے ساتھ جڑی تھی۔ یہ وہ طویل اور اُلجھا ہوا دھاگہ جسے لپیٹنے کے لیے کئی حوالوں اور کئی جہتوں میں کام ہو رہا ہے۔ جس دن مولانا قتل ہوئے عین اسی روز پاکستان کے شہرہ آفاق جرنیل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل پر بھی قاتلانہ حملے کی خبریں عام ہوئیں۔ اس خبر کی تصدیق یا تردید بھی نہیں ہوئی اگر یہ حملہ ہوا ہے تو تحقیقاتی اداروں کا کام مزید آسان ہوجاتا ہے۔ حمید گل تو اس دنیا میں موجود نہیں مگر انہیں پاکستان کی افغان پالیسی اور جہادی ماضی کا اہم کردار سمجھا جاتا تھا۔ یہی تاثر مولانا سمیع الحق کے بارے میں بھی تھا۔ یہ دونوں ماضی کے جہادی دور کی دو اہم علامتیں تھیں۔ مولانا سمیع الحق تو براہ راست نشانہ بنے مگر حمید گل کی علامت پر وار کے لیے ان کے بیٹے کو چنا گیا۔ مولانا کے قتل کی ٹائمنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان چین میں اہم ترین دور ے پر تھے جہاں پاکستان اور چین کے درمیان مستقبل کے عہد وپیماں ہو رہے تھے دوسرا یہ کہ ملک میں آسیہ مسیح کی بریت نے ایک انارکی کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ اس موقع پر پاکستان اور پاکستانیت کی ایک علامت پر وار کرکے ریاست کو گہرا پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔ اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قاتلوں کو تلاش کرکے انصاف کے کٹہرے میں لائے اور اس قوم کو سازش کے اصل محرکات سے آگا ہ کرے۔ یوں تو اس واردات کو گھریلو ناچاقی اور روایتی ڈکیتی طرز کا قتل بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ اصل معاملے کو ابہام کا شکار کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔