عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف حالیہ احتجاج کو حکومت نے دانش مندی اور فراست سے نمٹا ہے، وزیرِ اعظم عمران خان نے متحمل مزاج وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری کو یہ فریضہ سونپا، انہوں نے احسن طریقے سے اسے انجام تک پہنچایا اور ایک معاہدے کے تحت احتجاج پرامن طریقے سے ختم ہوگیا۔ نہ کوئی گولی چلی، نہ لاٹھی چلی اور نہ آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے۔ اس پر ہمارے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں مورچہ زن لبرل عناصر سیخ پا ہیں، اُن کے ہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے کہ حکومت نے بزدلی دکھائی، سرنڈر کردیا، حکومت کی رِٹ کہاں ہے، سیکورٹی کے اداروں نے لوگوں کو بھون کر کیوں نہ رکھ دیا، انہیں نشانِ عبرت کیوں نہ بنادیا، ہمیں لبرل عناصر کی اس رنجیدگی اور داخلی کرب پر تاسّف کے ساتھ اُن سے ہمدردی بھی ہے، وہ غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے دو گھونٹ پانی پی لیں۔ دین اور اہلِ دین سے نفرت کرنے والوں پر ایسا وقت آتا رہتا ہے، قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بغض تو ان کی باتوں سے عیاں ہوچکا اور جو (نفرت) وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں، اس سے بدرجہا زائد ہے، (آل عمران: 118)‘‘۔
اپنے لوگوں پر گولی چلانا کسی بھی حکومت کے لیے دانش مندی کا کام نہیں ہے، اپنی عقل ودانش پر ناز کرنے والے لبرل دانشوروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ تحریک لبیک ممتاز حسین قادری کی شہادت کے نتیجے میں وجود میں آئی، اب تک یہ لوگ انہی کی لاش کو اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اگر لبرلز کی خواہش کے مطابق دس بیس یا اس سے زیادہ لاشیں اور گرادی جاتیں، تو انہیں تو سکون مل جاتا، لیکن اس کا ردِّعمل حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت کو بہا لے جاتا یا بے حد کمزور کر دیتا اور ملک دیر تک اس کا خمیازہ بھگتتا رہتا۔ محبتِ رسول کی حلاوت سے محروم دل ودماغ والوں کے لیے اس کرب کا ادراک مشکل بلکہ اُن کے تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ناممکن ہے۔
انتہائی ناگزیر حالات کے بغیر اپنے لوگوں پر گولی چلانا احمقانہ فعل ہوتا ہے، اس اندھے پن کے لیے کسی علم ودانش کی ضرورت نہیں ہوتی، بس طاقت کے نشے میں چور ہوناہی کافی ہوتا ہے۔ حال ہی میں اٹلی کے ایک صوبے کٹالیا نے اپنے وفاق سے بغاوت کر کے ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور متوازی حکومت قائم کردی، اٹلی کی حکومت نے اسے خلافِ آئین قرار دیا اور اس کو ردّ کردیا، ایکشن لے کراس حکومت کو معزول کیا، لیکن لاشوں کے ڈھیر نہیں لگائے۔ وہ تو لبرل ملک ہے، ہمارے لبرلز کے مطابق وہاں کُشتوں کے پُشتے لگنے چاہیے تھے، لیکن دانش مند حکومتیں معاملات کو نمٹانے کے لیے عقل سے کام لیتی ہیں۔
کیا ملک میں دھرنے پہلی بار ہوئے تھے، 2011 میں مذہب ہی کے عنوان سے فقہ جعفریہ والوں نے جابجا دھرنے دیے، لیکن کریک ڈاؤن نہیں کیا گیا، اس کے بعد 2012 اور 2014 میں سیاسی دھرنے ہوئے جن میں ریڈزون میں قانون شکنی، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر چڑھائی، قبریں کھودنے اور کفن پہننے کے واقعات شامل ہیں، لیکن صبر وضبط سے کام لیا گیا اور خون وخرابے سے ملک بچ گیا۔ حضور والا! اُس وقت بھی ریاست یہی تھی، آئین وقانون بھی یہی تھا، ہماری سلامتی کے ادارے اور معزز عدالتیں بھی یہی تھیں، اُس وقت تو ریاست کی ناکامی کی دہائی نہیں دی گئی، میڈیا مسلسل لائیو کوریج دے رہا تھا، اُس وقت جو نشر ہوا، آج کے تخت نشینوں کو خود اس پر ندامت ہورہی ہوگی۔
صرف مذہب اور اہلِ مذہب کے ساتھ لبرلز کا اتنا نفرت انگیز رویہ ناقابلِ فہم ہے، اینکر پرسن سرکاری ترجمانوں کے منہ میں اپنی بات ڈالنے کے لیے سورنگ سے مضمون باندھتے ہیں، اس سے پہلے ایم کیو ایم کے زمانے میں کئی کئی دن مسلسل ایسی ہڑتال ہوتی تھی کہ پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا، بینظیر بھٹو مرحومہ کی شہادت پر کیا کچھ نہیں ہوا، اُس وقت لبرل میڈیا مِنقار زیرِ پَر یعنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔
میں لکھتا رہاہوں کہ لبرل ازم (ضدِّ مذہب) ایک عقیدہ ہے۔ آج سے 175 سال قبل لبرل ازم کے فروغ کے لیے ’’دی اکانومسٹ‘‘ رسالہ جاری ہوا۔ اس کے 13ستمبر کے شمارے میں مغربی اہلِ علم کی 37کتب اور 12ماہرین کے مضامین سے استفادہ کرتے ہوئے لبرل ازم کی ناکامیوں اور خطرات کی نشاندہی کی اور کہا: ’’Now, Liberalism is a broader faith‘‘، یعنی اب لبرل ازم ایک وسیع تر عقیدہ بن چکا ہے۔ اُسے اپنے سامنے توانا چیلنج کرنے والی عملی اور فکری قوت مذہب ہی نظر آتا ہے، اس لیے انہیں مذہب اور اہلِ مذہب کا وجود ایک پل گوارا نہیں ہے، چناں چہ انہوں نے for the 21st Century Liberalism Reinventing یعنی اکیسویں صدی کے لیے لبرل ازم کی تشکیلِ نَو کی بات کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لبرل ازم کے نظریے کو بھی مشکلات درپیش ہیں۔ میں ان شاء اللہ لبرل ازم پر الگ سے آرٹیکل لکھوں گا۔
اگر علامہ خادم حسین رضوی، علامہ پیر افضل قادری اور ڈاکٹر آصف اشرف جلالی عدالت عظمیٰ کے فل بنچ کے سامنے خود آکر دلائل دینا چاہتے ہیں اور عدالت عظمیٰ کے شکوک کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں، تو اس میں کیا خراب بات ہے، ماضی میں عدالت عظمیٰ شیخ رشید اور سراج الحق کو پاناما کیس میں یہ موقع دے چکی ہے، انہوں نے عدالت کے سامنے روسٹرم پر آکر خود اپنا موقف پیش کیا، تو کیا ناموسِ رسالت کا عنوان پاناما کیس ایسی رعایت کا بھی حق دار نہیں ہے۔ نیز فل کورٹ کا مطالبہ بھی کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی عمل نہیں ہے، اس سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی، نہ اس سے ہمارا نظامِ آئین وقانون پامال ہوجائے گا۔ ماضی میں توآئین کی بساط لپیٹی جاتی رہی ہے، اُسے معطل کیا جاتا رہا ہے، غاصب حکمرانوں کو نہ صرف حکومت کرنے بلکہ حکومت میں توسیع اورآئین میں تبدیلی کا آئینی جواز فراہم کیا جاتا رہا ہے، محترمہ بینظیر بھٹو مرحومہ نے عدالتوں کو ’’کینگرو کورٹس‘‘ کہا تھا، لیکن سٹنگ جج صاحبان میں سے کسی نے بھی اُن پر توہینِ عدالت کی دفعہ نہیں لگائی۔
توہینِ رسالت تو جذباتی مسئلہ ہے، مولانا سمیع الحق کا آخری خطاب ان حضرات سے بہت آگے کی بات ہے، ساحر لدھیانوی نے ’’اُس بازار‘‘ کا نوحہ پڑھتے ہوئے کہا تھا:
کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
اگر آئین شکنی کے تناظر میں ’’کہاں ہیں‘‘ کی جگہ ’’کہاں تھے‘‘ اور ’’ثناخوانِ تقدیسِ مشرق‘‘ کی جگہ ’’ثناخوانِ تقدیسِ آئین وقانون‘‘ پڑھ لیا جائے، تو سوال یہ ہے کہ آج ’’رِٹ آف دا گورنمنٹ‘‘ کی دہائی دینے والے لبرلز اُس وقت کہاں تھے۔ ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں تو سیاست وصحافت کے میدان میں بعض اہلِ عزیمت موجود تھے، اُن کی عزیمت کی داستانیں اب بھی دہرائی جاتی ہیں، لیکن پچاس پچاس لاکھ کے پیکج والوں کے لیے تو ایر کنڈیشن سے نکل کر دھوپ میں کھڑے ہونے کا تصور بھی حوصلہ شکن ہوگا، انہیں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر چاند ماری کا فن آتا ہے، یہ مذہبی جنونی تو عُسر ویُسر میں میدان میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور سینہ تان کر کہتے ہیں: ’’مارو گولی، ہمیں شہادت چاہیے‘‘، علامہ اقبال نے کہا تھا:
شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
چٹائیوں پر بیٹھنے والے جیل کے فرش پر بھی بیٹھ جائیں گے اور لیٹ جائیں گے، مگر لبرلز مجاہدین سے قربانی کی توقع، نا بھائی نا!، علامہ اقبال نے ان مَحمِل نشین لبرل مجاہدین کا ذکر یوں کیا ہے:
کبھی اپنا بھی نظّارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں!
کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں
اور جنونی عاشقانِ رسول کے دلوں میں محبتِ رسول کے جو جذبات موجزن ہیں، ان کو ان اشعار میں بیان کیا ہے:
مجھے روکے گا تُو اے ناخدا! کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
جلا سکتی ہے شمعِ کُشتہ کو موجِ نفَس ان کی
الٰہی! کیا چھُپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
نہ پُوچھ ان خِرقہ پوشوں کی، اِرادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاقِ جَبہَہ سائی سے
تو سنگِ آستانِ کعبہ جا مِلتا جبینوں میں
وزیرِ اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ ان لبرلز کے بہکاوے میں نہ آئیں، سمندر کے سے سکون اور ضبطِ نفس کے ساتھ ملک کو آگے لے کر جائیں تاکہ آپ ملک کا مستقبل سنوارنے کے لیے اپنے حسین خوابوں کو تعبیر دے سکیں۔ بلاول زرداری نے کہا ہے: ’’عمران خان قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، اس کے پیچھے جو خواہش مستور ہے، وہ آپ سمجھ سکتے ہیں، مہمیز دینے والے کئی جوکی قطار میں کھڑے ہیں، لیکن یہ آپ کے اقتدار کے جلد خاتمے کے خواہش مند ہیں۔ فواد چودھری کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ پرسوں کسی اور کے، کل کسی اور کے اورآج آپ کے قصیدہ خواں ہیں، مشکل وقت آیا تو کوئی اور آشیانہ تلاش کرلیں گے، اُن متانت ووقار والے رفقاء کے مشورے مانیں جو عُسر ویُسر میں آپ کے ساتھ کھڑے رہیں۔ گھاس پھونس کے ڈھیر کو آگ لگانے کے لیے ایک ماچس کی تیلی کافی ہے، چند لمحات میں بھسم ہوجائے گا، لیکن اس آگ کو بجھانا مشکل ہوتا ہے۔
ملک کی سلامتی اور نظامِ عدل سے وابستہ تمام اصحابِ مناصبِ جلیلہ سے میری مودّبانہ گزارش ہے کہ اپنی انا پر ملک وملت کی سلامتی کو مقدم رکھیں۔ احتجاج اور دھرنے کاکلچر ہمارے وطنِ عزیز میں آج کا نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے، اس میں ریاست اور اداروں کی بے تدبیری بھی شامل ہے، کیوں کہ ہم وقتی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہر قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، مگر اس کے عواقب پر اُس وقت غور نہیں کرتے۔ لیکن شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے طوفان ٹلا نہیں کرتے، سب ذمے داران کو دانش وفراست، صبر وضبط اور حوصلہ مندی سے کام لینا چاہیے، یہ وطنِ عزیز ہے تو اعلیٰ مناصب بھی ہیں، شان وشوکت بھی ہے، آئین وقانون بھی ہے، الغرض سب کچھ اس وطنِ عزیز کی بقا کے صدقے میں ہے، ہم عاجز و بے اختیار لوگ صرف مخلصانہ مشورہ دے سکتے ہیں۔