نیا کراچی بمقابلہ پرانا کراچی ! (آخری حصہ)

269

ہم نے ملک کو کیا سے کیا بنا دیا لیکن میرا یہ دکھ کل ماتم میں تبدیل ہو گیا کیوں کہ میں نے پڑھا کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس کا شمار اب بغداد‘ این ڈی جامینا (چاڈ)‘ عابد جان (آئیوری کوسٹ)‘ کابل‘ کنساشا (کانگو)‘ تبلیسی (جارجیا)‘ صنعا‘ نیروبی اور کونا گری (گنئی) میں ہوتا ہے‘ کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے‘ کراچی میں پچھلے دو برسوں میں صرف چھ سو غیر ملکی آئے ہیں اور یہ بھی سرکاری مہمان تھے اور انہیں بھاری سیکورٹی میں ہوٹل اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پہنچایا گیا۔
کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں بھی شامل ہو چکا ہے‘ اس کے ساحل‘ فضا اور سڑکیں آلودگی کی انتہا کو چھو رہی ہیں‘ بارش کے بعد شہر میں نکلنا محال ہو جاتا ہے جب کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ ہاتھ میں سستا موبائل‘ جیب میں اضافی پرس جس میں تین چار ہزار روپے ہوں اور کلائی پر سستی گھڑی پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اور انہیں جس چوک پر ’’سب کچھ ہمارے حوالے کر دو‘‘ کا حکم ہوتا ہے یہ چپ چاپ اپنی گھڑی‘ اپنا پرس اور اپنا موبائل حکم دینے والے کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن یہ اس کے باوجود مارے جاتے ہیں کیوں کہ لٹیرے صرف مال نہیں چھینتے بلکہ انہیں جان لینے کا مینڈیٹ بھی ہوتا ہے۔ کراچی شہر میں عام بڑی شاہراہوں تک پر سفر محال ہے‘ گاڑیاں چھیننا‘ موٹرسائیکل لے لینا اور کسی بھی راہ گیر کو اغوا کر لینا عام ہے‘ کراچی میں لاشوں کا موسم آتا ہے تو درجنوں نعشیں گر جاتی ہیں۔ شہر چار قسم کے مافیاز اور بھتا گیروں میں تقسیم ہے اور ہر گروپ قانون اور حکومت سے مضبوط ہے اور حکومت کسی گروپ کے اشتہاری کو گرفتار کرنے کا رسک نہیں لے سکتی‘ 12 ربیع الاول اور محرم شہر پرخوف بن کر آتے ہیں‘ شہر کے تاجر اور صنعت کار حکومت کے بجائے مافیاز کو ٹیکس دیتے ہیں اور یہ جب تک ٹیکس دیتے رہتے ہیں یہ‘ ان کا مال‘ ان کا خاندان اور ان کی فیکٹری بچی رہتی ہے لیکن یہ جس دن اپنی مجبوری کا رونا روتے ہیں۔ یہ اس کے بعد باقی زندگی رو رو کر گزارتے ہیں۔ یہ تو تھی وہ کہا نی جو میں نے ’’لفٹ‘‘ کی ہے۔ لیکن رکیے اس کہانی کے آخری دو پیرا گراف کے حالات اب وہ نہیں رہے۔ اب یہاں لاشیں گرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا (اللہ کرے کہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہو) الحمد للہ یہ سب رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مسلسل محنت اور قربانیوں کی بدولت ہوا ہے۔ اب جو بھی کچھ باقی رہ گیا ہے وہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اور وہ ہے کرپشن۔
میں پوری ذمے داری کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ 1960 کی دہائی میں کراچی مثالی خوبصورت اور پرامن تھا تو اس کی وجہ پاکستان بنانے والے اور بھارت سے آکر کراچی میں بسنے والے لوگ تھے۔ کراچی والے تو بلاوجہ ہی بدنام ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کی تنزلی کا عمل اس کی ترقی کے ساتھ اس وقت شروع ہوا جب ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ کراچی کے پکے مکانات یا سرکار کے دیے ہوئے کوارٹرز میں بسنے اور رہنے والے کراچی کو نقصان پہنچانے کی وجہ نہیں ہیں بلکہ اس شہر میں کچی آبادیوں کو بسانے اور بسنے والوں کی اکثریت کی وجہ سے اسے نقصان پہنچنے لگا۔ اس کی تباہی میں کسی چودھری نذیر حسین کے بیٹے کا ہاتھ تو ہوگا جس نے اپنے آپ کو مہاجروں کا لیڈر ظاہر کرکے ان کی ایک پوری نسل خراب کردی اور اب لندن میں پاکستانی نژاد کے روپ میں برطانوی بنا بیٹھا ہے۔ کراچی ہی کیا ملک بھر میں کرپشن کے معاملات میں جو لوگ ملوث ہیں ان پر نظر ڈالیں تو بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ مہاجروں کی اولادیں کرپٹ اور مجرم نہیں ہیں اور نہ تھیں بس انہیں ایک سازش کے تحت غلامانہ ذہنیت کے ایک ’’پتر‘‘ نے بنایا اور خود برطانیہ کو پیارا ہوگیا۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ پاکستان میں بسنے والی کوئی قوم بری نہیں بلکہ ان قوموں سے وابستہ اکثریت وطن پرست ہیں۔ چوں کہ کراچی میں تمام قوموں کے لوگ آباد ہیں اس لیے یہ منی پاکستان ہے۔ جو لوگ مستقل کراچی آکر اسے اپنا شہر سمجھنے لگے ہیں تو ان کو چاہیے کہ سی این آئی سی (نادرا کارڈ) میں اپنی مستقل رہائش کراچی لکھوائیں اور اپنے آبائی علاقوں کے ڈومیسائل کو منسوخ کروا دیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر جس صوبے کے وہ باشندے ہیں اس صوبے کو پر دباؤ ڈالیں کہ کراچی کو ان کے رہنے کی مد میں زرتلافی ادا کریں جو وہ صوبے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کی مد میں حاصل کررہے ہیں۔
ملک میں انصاف کا نظام رائج کرنے کے دعوے اور وعدے کرنے والی حکومت کو چاہیے کہ کراچی کے ساتھ انصاف کیا جائے چاہے اسے براہ راست وفاق کے کنٹرول میں کرنا پڑے کیوں کہ یہ ڈھائی کروڑ سے زیادہ افراد کا مسئلہ ہے۔ کراچی کے ساتھ انصاف کے بغیر ملک میں انصاف قائم نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس شہر کے ساتھ انصاف نہیں کیا جائے گا اس وقت تک کراچی، دوبارہ روشنیوں کا شہر نہیں بن سکتا۔ یاد رکھیں کہ ملک کی ترقی کا دارومدار کراچی کی ترقی پر ہے۔ کراچی تو صرف اپنا حق مانگتا ہے۔