شہادت کا تاج۔۔۔ اور مذاکرات کی میز

315

مولانا سمیع الحق کو نامعلوم حملہ آوروں نے اُن کے گھر میں گھس کر شہید کر ڈالا۔ یوں 81 سال کی عمر میں مولانا شہادت کا تاج پہن کر اپنے ربّ کے حضور حاضری کے لیے روانہ ہوگئے۔ مولانا تحریک آزادی کے بڑے رہنما مولانا عبدالحق کے صاحبزادے تھے۔ 1937ء میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے، اپنی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ دارالعلوم حقانیہ میں حاصل کی۔ وہ بیک وقت بہت بڑے عالم دین اور سیاست دان تھے، وہ جمعیت علمائے اسلام کے بڑے رہنما تھے۔ ان کے ایما پر جمعیت علمائے اسلام درخواستی گروپ بنایا گیا۔ یہ نام تحریک آزادی کے رہنما مولانا عبداللہ درخواستی کے نام پر رکھا گیا تھا جس کو بعد میں جمعیت علمائے اسلام (س) میں تبدیل کردیا گیا۔ وہ دارالعلوم حقانیہ کے کئی دہائیوں سے مہتمم تھے۔ اس دارالعلوم میں افغان طالبان کے بانی ملا عمر، حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی، سراج الدین حقانی سمیت کئی طالبان رہنما زیر تعلیم رہے۔ اسی وجہ سے افغان طالبان میں مولانا سمیع الحق کو خاص قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے لوگ انہیں بابائے طالبان کے نام سے بھی پکارتے تھے۔
پاکستان کی سیاست میں وہ ایک متحرک رہنما تھے۔ وہ 1985ء سے لے کر 1997ء تک دو دفعہ سینیٹ کے رکن رہے۔ پھر 2002ء میں تیسری دفعہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 2008ء تک اس عہدے پر رہے۔ انہوں نے نہ صرف سوویت یونین کی افغانستان پر چڑھائی کی مخالفت کی بلکہ امریکا کے خلاف بھی جہاد کی کھل کر حمایت کی۔ افغانستان میں افغان طالبان کے تمام گروپوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ 2001ء میں وجود میں آنے والی افغانستان دفاع کونسل کے چیئرمین رہے پھر بعد 2012ء میں وجود میں آنے والی دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی بنے۔ اس کونسل کے وجود میں آنے کی وجہ سے پاکستان کے راستے افغانستان میں امریکی فوج کے لیے سامان لے جانے والے کنٹینرز اور پاکستان کے اندر قائم ہونے والے ہوائی اڈوں کی مخالفت تھی۔ افغانستان کے حوالے سے اُن کی اہمیت بڑی واضح تھی۔ یہی وجہ تھی کہ افغانستان کے پاکستان میں تعینات سفیر اُن سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے تھے۔ ابھی چند دنوں پہلے کابل سے ایک وفد اُن سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ جس نے ان سے افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کی کوششوں میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس وقت جب کہ افغانستان میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان پر شدید دباؤ ہے۔ مولانا کی موت کے بعد پاکستان کی حکومت کے لیے یہ کام بہت مشکل ہوجائے گا۔ مولانا کی موت ایک طرف افغانستان میں پرامن حل کی کوششوں کے لیے دھچکا ہے تو دوسری طرف دینی صفوں کا بھی ایک ناقابل مداوا نقصان ہے۔
تین سال قبل تحریک انصاف نے مولانا سے اتحاد کیا لیکن انتخابات میں انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔ سینیٹ میں مولانا کو ٹیکوکریٹ کی نشست پر کھڑا کیا لیکن انہیں ملنے والے ووٹ صرف چار تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگست میں اقتدار حاصل ہونے کے فوراً بعد افغانستان اور بھارت کے ساتھ امن کی خواہش یعنی پاکستان کی دونوں سرحدوں پر امن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ امریکا کی طرف سے اس خواہش کا خیر مقدم کیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ ’’ہم پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ طالبان کے خلاف مزید اقدامات کرے یا ان کو مذاکرات کے لیے تیار کرے یا پھر انہیں افغانستان میں واپس دھکیلیں نہ کہ انہیں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے جائیں۔ (کتنی حیرانی کی بات ہے افغانستان میں قبضہ امریکی حکومت کا بتایا جائے۔۔۔ لیکن ساری توقعات اور مطالبات پاکستان سے کی جائیں)۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کے مواقعے فراہم کیے جائیں، اس اُمید پر کہ وہ وہاں امریکا کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ اگست 2018ء میں امریکا کی جنوبی اور وسط ایشیائی امور کے نائب سیکرٹری نے صاف صاف کہا کہ ’’صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے لیے حکمت عملی میں انڈیا کا افغانستان میں اہم کردار ہے۔ یعنی امریکا کی اس حکمت عملی میں سب سے اہم بات ہی یہ ہے کہ انڈیا کو افغانستان میں کردار ادا کرنا چاہیے اور وہ کرسکتا ہے۔
لیکن عین موقع پر بھارت مچھلی کی طرح ہاتھوں سے پھسل گیا، یعنی افغانستان میں فوجی لحاظ سے کسی بھی کردار کی ادائیگی سے معذرت کرلی۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے سرد جنگ کے امریکی حریف اور اپنے پرانے سرپرست روس کے ساتھ محبت اور تجارت کی پنگیں بڑھانا شروع کردیں۔ حال ہی میں بھارت نے روس سے اسلحہ کی خریداری کا بڑا معاہدہ کیا ہے، روس نے افغان سیاست دانوں کو ماسکو میں طالبان کی نمائندہ قیادت سے مذاکرات کی دعوت بھی دی ہے۔ جس پر امریکا اور افغان صدر اشرف غنی نے برہمی کا اظہار کیا ہے لیکن یہ بات امریکا کے لیے بہرحال کان کھڑے کرنے والی ہے۔ افغانستان کی جنگ امریکا کی تاریخ کی طویل ترین اور مہنگی ترین جنگ ہے جس سے وہ اب جلد از جلد چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ 2014ء میں ایک امریکی فوجی ’’برگڈال‘‘ کے بدلے پانچ طالبان کو رہا کیا گیا تھا۔ یہ پانچوں طالبان اب طالبان کے ان نمائندوں میں شامل ہیں جو امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ یہ پانچوں ملا عمر کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔ ان کے خیالات اور سوچ وہی ہے جو ملا عمر کی تھی۔ یعنی افغان طالبان انہی قدامت پسند سوچ کے ساتھ پہلے سے زیادہ طاقت اور اعتماد کے ساتھ موجود ہیں اور امریکا انہی قدامت پسند طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے مرا جارہا ہے اور پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ انہیں مذاکرات کی میز پر لاؤ۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت کے بعد افغان طالبان سے رابطہ پاکستانی حکومت کے لیے مشکل ہوگا لیکن حالات کبھی کسی کے لیے رُکتے نہیں وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کیا افغانستان پر 42 ملکوں کی فوج کے ساتھ حملہ آور ہوتے وقت امریکا نے سوچا ہوگا کہ کبھی یہ وقت بھی آئے گا کہ اُسے افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے یوں منتیں کرنی پڑیں گی۔ تبدیلی کی ایک تصویر یہ بھی ہے کہ افغان لیڈر ملا عبدالغنی برادر کو پاکستانی قید سے رہائی مل چکی ہے اور یہ رہائی یقیناًکسی خاص مقصد کے لیے ہے۔