آسیہ مسیح کی بریت کا فیصلہ آتے ہی پورے ملک خصوصاً لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں تحریک لبیک جس طرح سرگرم ہوئی وہ حیران کن تھا۔ اس سرعت اور طاقت سے کبھی ایم کیو ایم حرکت میں آتی تھی لیکن محض کراچی کی حدتک۔ پورے ملک کو یوں مفلوج کردینا تو ان ملک گیر سیاسی جماعتوں کے بس کی بات بھی نہیں جو عشروں سے ملک میں سرگرم ہیں۔ ان جماعتوں نے 1977 میں تحریک نظام مصطفی کے موقع پر اپنی طاقت کا مظاہر کیا تھا۔ اس کے بعد یہ جماعتیں اُس شدت اور طاقت سے کبھی بروئے کار نہ آسکیں۔ تحریک لبیک ممتاز قادری کی پھانسی کے ردعمل میں وجود میں آئی تھی۔ نومبر 2017 میں دارالحکومت کے فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے خلاف اس جماعت نے ایک کامیاب دھرنا دیا تھا۔ دھرنے میں چونکا دینے والا عنصر خادم حسین رضوی کی مادر پدرآزاد زبان تھی۔ اسلام آباد پولیس دھرنا منتشر کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی سیکورٹی پر مامور ٹرپل ون بریگیڈ بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ تاہم فوج کے ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر نے مذاکرات کرکے دھرنے کو اختتام تک پہنچایا۔ یہ خادم حسین رضوی کی طاقت کا اظہار اور ایک بڑی کامیابی تھی۔ اہل دھرنا کو اس طرح شہ دی گئی کہ ان میں نقد رقو م بھی تقسیم کی گئیں۔ فیض آباد دھرنے سے متعلق یہ تاثر عام تھا کہ اسے کسی نہ کسی صورت فوج کی حمایت حاصل ہے۔ اس دھرنے کے بعد خادم حسین رضوی ایک ایسی متنازع شخصیت کی صورت میں سامنے آئے جن کے پاس مخلص کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن جن کی شعلہ بار دشنام طرازی سے کوئی محفوظ نہیں۔ نہ وزیراعظم، نہ جج اور نہ آرمی چیف۔ نواز شریف کی زیر صدارت ایک اجلاس کی روداد باہر آئی تھی تو ہنگامہ برپا کردیا گیا تھا۔ جو زبان خادم حسین رضوی بولتے ہیں یہ زبان کوئی صحافی، سیاست دان، دانشور یا عام آدمی بولتا تو اس پر زمین تنگ کردی جاتی۔
آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کے خلاف لوگوں کے احتجاج کا ایک جواز اور پس منظر ہے۔ پاکستان میں لوگوں کو عدلیہ پر اعتماد نہیں۔ ہماری عدالتیں حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق فیصلے دیتی آئی ہیں۔ ایوب خان سے لے کر جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف تک عدالتوں نے ڈکٹیٹروں کو سند حکمرانی عطا کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف پر تو مہر بانی کا یہ عالم تھا کہ بن مانگے آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ جنرل ضیا الحق کو اپنے اقتدار کی بقا کے لیے بھٹو کی پھانسی مطلوب تھی ہماری عدلیہ اس خواہش کی تکمیل کا ذریعہ بن گئی۔ سابق صدر غلام اسحق اور نواز شریف محترمہ بے نظیر کو سزا دینا چاہتے تھے۔ عدالتوں نے زرداری اور محترمہ بے نظیر کو تگنی کا ناچ نچادیا۔ محترمہ شہروں شہروں مقدمات بھگتاتی پھرتی تھیں۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ پیش آیا تو یہ ہماری عدالتیں ہی تھیں جو ظالم امریکی جاسوس اور قاتل کی رہائی کا ذریعہ بنیں۔ ریاستی اداروں کی جانب سے سیکڑوں لوگوں کو لا پتا کردیا گیا ہے۔ ہماری عدالتیں ان کے متعلق فیصلے دینا تو درکنار کیس سننا گوارا نہیں کرتیں۔ مئی 2011 میں امریکی ہیلی کاپٹر پا کستان کی حدود میں داخل ہوئے اور آرام سے کارروائی کرکے چلے گئے اس حملے کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ نواز شریف کو نکالنے کی بات آئی تو عدالتیں ہی اس عمل کا ذریعہ بنیں۔ بدقسمتی سے آسیہ مسیح کے فیصلے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
آسیہ مسیح کے فیصلے کی ٹائمنگ اہم ہے۔ یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی برائے آزادی مذہب جان فیگل نے دسمبر 2017 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یورپی یونین کی جانب سے پاکستانی برآمدات کو جی ایس پی پلس دینے کے معاملے کو آسیہ بی بی کے مقدمے سے مشروط کردیا تھا۔ یکم فروری 2018 کو یورپی یونین نے کہا تھا کہ ’’یورپی ممالک نے اس بات پر یقین کرنا شروع کردیا ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کچھ مخصوص سیاسی اور اثر رسوخ رکھنے والی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے جانتے بوجھتے آسیہ بی بی کے مقدمے میں تاخیر کررہی ہے۔‘‘ 24فروری 2018 کو پوپ فرانسس نے آسیہ بی بی کے خاندان سے ملاقات کی اور اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ 29اکتوبر 2018 عدالت عظمیٰ کا آسیہ بی بی کا فیصلہ آنے سے دودن پہلے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یورپی یونین کے وفد برائے جنوبی ایشیا سے ملاقات کی تاکہ یورپ کے ساتھ تعلقات کو مظبوط بنایا جائے۔ موجودہ حکومت اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک سعودی عرب، چین اور متحدہ امارات سے قرضے لے رہی ہے ساتھ ہی وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی تیاری بھی کرررہی ہے۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے یہ اقدامات مصنوعی تنفس کے مماثل ہیں۔ معیشت کی ترقی تب ہی ممکن ہے جب پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ کرے۔ جس کے لیے یورپی یونین کا تعاون ازبس ضروری بلکہ لازمی ہے۔ یورپی یونین کے تعاون کے بغیر برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں۔ یورپی یونین نے پاکستان سے درآمدات کو آسیہ بی بی کے مقدمے سے جوڑ دیا۔ عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلہ سے یورپی یونین سے تعلقات اور برآمدات میں بہتری آنے کے امکان پیدا ہوئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد جہاں پاکستان بھر میں غم اور غصے کی کیفیت ہے وہاں اہل مغرب اس فیصلے کو خوش آئند قراردے رہے ہیں۔ توہین رسا لت کے مرتکب ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ ویلڈرز نے اس فیصلے پر ٹویٹ کیا ’’زبردست خبر! آسیہ بی بی بری اور رہا ہوگئی۔‘‘ انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے دباؤ کو بھی اس فیصلے کا محرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد حکومت آگاہ تھی کہ عوام کا ردعمل شدید اور ملک گیر ہوگا۔ لہٰذا فیصلے آنے کے ساتھ ہی بلکہ بعض حلقوں کے مطابق اس سے پہلے ہی تحریک لبیک پورے پاکستان میں سرگرم کردی گئی۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد میں اہم مقامات پر دھرنے دے دیے گئے۔ عوام کے غم وغصے کی نکاسی کا بھرپور اہتمام کیا گیا۔ حکومت سے مذاکرات کیے گئے اور پانچ لا حاصل نکات منظور کرواکر دھرنے ختم کردیے گئے۔ معاہدے کی سب سے اہم شق عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی اپیل ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے نظر ثانی کی اپیل میں فیصلہ برقرار رکھا جس کا غالب امکان ہے تو کیا تحریک لبیک کے لیے دوبارہ اس طرح کا ملک گیر احتجاج لانچ کرنا ممکن ہوگا؟ آپ نے نیلامی یا آکشن کا منظر دیکھا ہوگا۔ انتظامیہ اپنے ہی لوگوں کو کھڑا کرکے نیلامی کا عمل کنٹرول میں رکھتی ہے اور جب چا ہتی ہے ختم کرادیتی ہے۔ تحریک لبیک کا اس منصوبے میں یہی کردار تھا جو اس نے جانے انجانے ادا کیا ہے۔
خادم رضوی اور ان کے ساتھیوں نے حالیہ دھرنوں میں جس طرح سرخ لکیر کراس کی، ہم ترین لوگوں اور اداروں کو ہدف تنقید ہی نہیں ان پر آگ برسائی ہے، ججوں کے قتل کے فتوے جاری کیے، آرمی چیف کو غیر مسلم قرار دیا اس سے یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کو مزید سسٹم کا حصہ نہیں رہنے دیا جا سکتا۔ لہٰذا اب خادم حسین رضوی اور اس کے معتقدین کی کانٹ چھانٹ اور ڈاؤن سائزنگ کا عمل شروع ہونے جارہا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اس عمل میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں جو خادم حسین رضوی سے خائف ہیں۔ مقدمے کے فیصلے سے لے کر دھرنا مظاہرین سے معاہدہ کرنے اور اب توڑ پھوڑ تشدد کرنے والوں، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن تک سب کچھ عمران خان کی حکومت کے فائدے میں گیا ہے۔ عمران خان نے اپنے رف اور ٹف اسٹائل میں آگے بڑھ کر پہلے ہی دن جس طرح ججوں اور آرمی چیف کا دفاع کیا ہے، اداروں میں عمران خان کی عزت اور اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ مغرب عمران خان کے اقدامات سے مطمئن ہی نہیں خوش ہے، ایک ایسا بھاری پتھر جسے اٹھانے کی کسی میں تاب نہیں تھی دو ماہ کی ناتواں حکومت نے اسے ٹھکانے لگا دیا۔ دنیا بھر میں عمران خان اور پاکستان کا سافٹ امیج پیدا ہوا۔ دراصل یہ ’’مشن سافٹ امیج‘‘ تھا جس میں اداروں، لوگوں اور مہروں نے اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔