تجاوزات کے خلاف بے ہنگم آپریشن

194

عدالت عظمیٰ کے حکم کی روشنی میں صدر ایمپریس مارکیٹ کو اصل حالت میں لانے تک تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ اس پر دکانداروں اور پتھاریداروں نے زبردست احتجاج کیا ہے لیکن میئر کراچی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ علاقے کو اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔ نشانہ فی الحال دکانوں کے سن شیڈز ہیں اور بڑے بڑے بورڈز۔ ان بورڈز اور سن شیڈز کا قبضے سے تعلق نہیں تھا جبکہ فٹپاتھوں پر پتھاروں اورکیبن رکھنے سے پوری مارکیٹ اور سڑکوں پر ٹریفک اور پیدل چلنے والوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ جہاں تک ایمپریس مارکیٹ کو اصل حالت میں لانے کا دعویٰ اور عزم کا تعلق ہے تو یہ میئر کراچی کیسے کریں گے اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ پہلا سوال ہی یہ سامنے آیا ہے کہ سڑکوں اور فٹپاتھوں پر پچاس پچاس ہزار روپے میں کیبن رکھوائے کس نے تھے؟جو لوگ اس کام میں ملوث ہوں یا یہ کام کرنے والوں کے ساتھی ہوں وہ کس طرح تجاوزات کا خاتمہ کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ انسداد تجاوزات کا عملہ بے ہنگم طریقے سے آپریشن کررہا ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے دشمن ملک کی فوج نے حملہ کردیا ہے۔ اگر بورڈ اور سن شیڈز اتارنے ہی ہیں تو ان کو ڈھنگ سے اتارا جائے۔ کیا ان تجاوزات کو ہٹانے کا مطلب صرف توڑ پھوڑ ہے۔ اس پر احتجاج بھی فطری ہے۔ تجاوزات کی وجہ سے گاڑیوں اور عوام کو پیدل چلنے میں مشکل ہوتی ہے لیکن اس کے خاتمے کا انداز بھی اچھا نہیں۔ سب سے بڑھ کر خدشہ یہ ہے کہ چند روز بعد معاملات طے ہوجانے کے نتیجے میں یہی پتھارے پھر کھڑے ہوجائیں اور نئے سن شیڈ اور بورڈ لگ جائیں گے۔ تو پھر عدالت عظمیٰ کا حکم کہاں گیا۔یہ تماشا اہل کراچی ہر ماہ دو ماہ بعد دیکھتے ہیں اس سے قبل پارکوں اور کھیل کے میدانوں میں قائم سیاسی پارٹی کے دفاتر ختم کرنے کے عدالتی حکم کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا تھا جہاں لائبریری تھی اسے توڑ دیا گیا۔ مالی کے کمرے توڑ دیے گئے اور لوگوں سے کہہ دیا گیا کہ جماعت اسلامی نے تڑوائے ہیں۔ یہ کیس جماعت اسلامی نے داخل کیا تھا لیکن عملدرآمد کرنے والے تو وہی تھے جنہوں نے قبضے کیے اور کرائے وہ تو ایسے ہی کارروائی کریں گے۔