اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، ملک کے طول و عرض میں سمجھی، بولی، پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس نے ملک کی تمام لسانی عصبیتوں کو وحدت کی لڑی میں پرو رکھا ہے۔ قائد اعظمؒ اپنی زندگی میں اسے واحد قومی و سرکاری زبان قرار دے چکے ہیں لیکن افسوس پاکستان کو بنے 71 سال ہوگئے اردو ابھی تک اپنے حق سے محروم چلی آرہی ہے۔ 1973ء کے آئین میں یہ طے پایا تھا کہ نفاذ آئین کے 15 سال بعد اردو کو ملک کے تمام ریاستی اداروں اور سرکاری دفاتر میں عملاً نافذ کردیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا گیا جس کا کام ان انگریزی اصطلاحات کو اردو کے قالب میں ڈھالنا تھا جو سرکاری خط و کتابت اور فائلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ کام 15 سال تک مستعدی سے ہوتا رہا۔ چناں چہ جب 1988ء میں یہ 15 سالہ آئینی مدت مکمل ہوئی تو ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کے صدر نشین ڈاکٹر جمیل جالبی نے اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس بلا کر اعلان کیا کہ اردو سرکاری دفاتر، عدلیہ کے ایوانوں اور دیگر قومی اداروں میں داخل ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ حکومت اسے کل سے بطور سرکاری زبان اختیار کرسکتی ہے لیکن حکومت اس اعلان کے بعد ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پارلیمنٹ کو 15 سال کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد اردو کے عملی نفاذ کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تھی لیکن وہاں بھی اس کے حق میں کوئی آواز نہ اُٹھی اور نفاذِ اردو کا معاملہ اس طرح دبا دیا گیا جیسے یہ کوئی ایشو تھا ہی نہیں۔ جب بھی کسی درد مند نے اردو کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کی بات کی تو اس کے ردعمل میں علاقائی زبانوں کا ایشو کھڑا کردیا گیا، حالاں کہ قومی زبان علاقائی زبانوں کی حریف نہ تھی اور نہ وہ ان کے فروغ میں مانع تھی۔ یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ قومی اسمبلی میں چار علاقائی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کی تحریک پیش کردی گئی لیکن اسے پزیرائی حاصل نہ ہوسکی۔ اس تنازع میں اصلی فائدہ انگریزی کو پہنچا جو اردو کی حریف اور اس کی جگہ پر قابض تھی، انگریز تو چلا گیا تھا لیکن وہ اپنی پروردہ بیوروکریسی کی صورت میں کالے انگریزوں کو اپنا جانشین بنا گیا جو انگریزی کی غلامی میں مگن تھا اور اپنی جان سے بڑھ کر اس کی حفاظت کررہا تھا۔ اس طرح نفاذ اردو کی 15 سالہ آئینی مدت گزرنے کے باوجود اردو کسمپرسی کا شکار رہی اور انگریزی ہر جگہ پھولتی پھلتی رہی۔ آخر مزید 27 سال گزر گئے تو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ایس جواد خواجہ کو اردو کی حالتِ زار پر رحم آیا اور انہوں نے 5 اگست 2015ء کو عدالتوں سمیت تمام سرکاری اداروں اور دفاتر میں فوری طور پر اردو کو نافذ کرنے کا حکم جاری کیا۔ انہوں نے فیصلے میں لکھا کہ تمام عدالتوں کے ججوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے فیصلے قومی زبان میں تحریر کریں تا کہ انہیں بہتر طور پر سمجھا اور اُن پر عملدرآمد کیا جاسکے۔ اِسی طرح تمام سرکاری دفاتر میں فائلوں کی زبان اردو ہو اور تمام سرکاری اداروں کی کارروائی اردو میں عمل میں لائی جائے۔ اس طرح عوام کی بہت سی مشکلات کا ازالہ ہوجائے گا اور وہ حکومت کے ساتھ قربت محسوس کریں گے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد بیوروکریسی میں ہلچل مچ گئی، بظاہر یہ تاثر دیا گیا کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد میں مخلص ہے اور بہت جلد سارا دفتری نظام اردو کے قالب میں ڈھال دیا جائے گا۔ چند دنوں تک یہ خبریں چلتی رہیں، بعض عدالتی فیصلے بھی اردو میں آئے لیکن پھر یہ معاملہ ٹھپ ہوگیا اور عدالتوں سے لے کر سرکاری دفاتر تک انگریزی کا تسلط بدستور قائم رہا۔ اب 3 سال بعد چیف جسٹس (ر) ایس جواد خواجہ نے پھر خاموشی توڑی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ سرکاری طور پر اردو کو نافذ نہ کرکے خود جج حضرات بھی توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان کے اس بیان پر سوائے امیر جماعت اسلامی کراچی کے کوئی قوی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ صرف امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سابق چیف جسٹس کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے عدالتی حکم کو 3 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن افسوس اس عدالتی حکم کے باوجود اردو کو ریاستی و حکومتی اداروں بشمول عدلیہ کے اندر نافذ نہیں کیا گیا جو نہ صرف توہین عدالت بلکہ قومی جرم ہے۔ اردو کے حق میں یہ آواز ایک ایسی حکومت کے دور میں اُٹھی ہے جو ملک میں انقلابی تبدیلیوں کا داعیہ رکھتی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک سے ناانصافیوں کا خاتمہ کرے گی۔ عمران خان نے جب سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے قومی شائر کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی دوستانہ ہے۔ انہوں نے قومی لباس کو اقتدار کی پہچان بنادیا ہے اسی طرح قومی زبان اردو بھی ان کی شناخت بن گئی ہے، وہ کسی کمپلیکس کے بغیر اردو میں قوم سے خطاب بھی کررہے ہیں اور تمام سرکاری اجلاسوں کی کارروائی بھی ارادو میں ہورہی ہے، ان کی خصوصی ہدایت پر وزیر خارجہ نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اردو میں خطاب کیا ہے۔ اردو کی اس پزیرائی کے باوجود ملک کا سارا دفتری نظام انگریزی میں چل رہا ہے۔ عدالتوں نے بھی ملک میں آنے والی تبدیلی کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور جج حضرات بدستور انگریزی میں اپنے فیصلے تحریر کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ موجودہ چیف جسٹس محترم ثاقب نثار جو ملک میں انصاف کی نہایت توانا آواز ہیں، اپنے فیصلے انگریزی میں تحریر کرکے اردو کے ساتھ ناانصافی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ اردو کے ساتھ ملک گیر سطح پر ہونے والی ناانصافی کا فوری ازالہ کیا جائے۔ اردو سافٹ ویئر کی موجودگی میں سرکاری دفاتر میں اردو کا نفاذ کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ پارلیمنٹ کی ساری کارروائی اردو میں ہوتی ہے تو عدلیہ سمیت تمام سرکاری اداروں کی کارروائی اور فیصلے بھی اردو میں مشتہر ہونے چاہئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں سے مرعوب ہوئے بغیر اردو کو ہر سطح پر فوری نافذ کرنے کے احکامات جاری کرکے قومی اُمنگوں کی ترجمانی کرے گی۔ اردو کے نفاذ کے لیے جو سازگار ماحول اِس وقت ہے وہ شاید پہلے کبھی نہ تھا، اردو کے ساتھ انصاف اب نہ ہوا تو پھر کب ہوگا!۔