سود کے خاتمے پر دوسروں کا اطمینان!

418

وفاقی عدالت شریعۃ نے سود کے خاتمے کے لیے دائر مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کو فیصلہ لکھتے ہوئے صرف مسلمانوں ہی کو مطمئن نہیں کرنا بلکہ دیگر لوگوں کو بھی مطمئن کرنا ہے ۔ ’’دیگر لوگ‘‘ کون ہیں، اس کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن غالباً ان سے مراد غیر مسلم ہیں ۔ لیکن پھر ایک سوال اُٹھتا ہے کہ غیر مسلم کون؟ کیا وہ جو پاکستانی شہری ہیں یا غیر مسلم ممالک؟ جہاں تک غیر مسلم پاکستانی شہریوں کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے پابند ہیں اور انہیں سود پر پابندی پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا ، اس میں سبھی کا فائدہ ہے ۔ غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمان بھی ان ملکوں کے قوانین کے پابند ہوتے ہیں ۔ وفاقی شریعت عدالت کا کام شریعت کی روشنی میں فیصلے کرنا ہے نہ کہ کسی کو مطمئن کرنا ۔ شرعی عدالت میں بیٹھے ہوئے جج صاحبان شرعی احکامات اور قرآن و سنت سے بخوبی آگاہ بلکہ ان امور میں سند ہوں گے اسی لیے انہیں شریعت عدالت میں منصف کے منصب پر بٹھایا گیا ہے ، یہ کوئی عام عدالت نہیں ۔ اس عدالت کی اولین ذمے داری اللہ اور اس کے رسول ؐ کو مطمئن کرنا ہے نا کہ ’’دیگر لوگوں‘‘ غیر مسلم ممالک اور سود کے نام پر خون چوسنے والے بین الاقوامی اداروں کو ۔ سود یاربوٰ کی حرمت سے یہ معزز جج ضرور واقف ہوں گے اور یہ بھی کہیں پڑھا ہوگا کہ سود کا لین دین اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کے مترادف ہے اور اس جنگ میں کون خائب وفاسر ہوگا ، یہ محتاج وضاحت نہیں ۔ رسول اکرم ؐ نے سب سے پہلے اپنے خاندان والوں کا سود معاف کیا تھا ۔ سود کے بارے میں تو یہ تک کہا گیا ہے کہ اس کا حساب کتاب رکھنے والے بھی مجرم ہیں اسی لیے کتنے ہی صالح افراد ایسے ہیں جنہوں نے بینکوں کی نوکری چھوڑ دی ۔ یہاں ایک عرصے سے یہ بحث چل ہی ہے کہ ’’ربا‘‘ کا مطلب کیا ہے اور ’’انٹرسٹ‘‘ کی تعریف کیا ہے ۔ برسوں سے سوئی یہیں پر اٹکی ہوئی ہے ۔ چیف جسٹس شیخ نجم الحسن کی سربراہی میں 5 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہی ہے ۔ ربا یا ربوٰ کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے اس کا مطلب تفاسیر میں موجود ہے ورنہ تو کوئی بھی اردو لغت اٹھا کر اس کا مطلب معلوم کیا جا سکتا تھا ۔ اردو لغات کے مطابق’’رباء‘‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے سود، بیشی ، افزوتی ، سماعت کے دوران میں جناب چیف جسٹس نے فرمایا’’ افسوس ہے کہ فریقین نئے نکات لے کر نہیں آئے‘‘۔ محترم! قرآن اور حدیث کے بعد بھی نئے نکات کی تلاش ہے؟ چیف جسٹس جناب نجم الحسن نے ایک اہم بات کی کہ عدالت کے پاس اتنے اختیارات نہیں ، ہم صرف پارلیمنٹ کو سفارشات بھیج سکتے ہیں کہ اس معاملے کو قرآن و سنت کے مطابق طے کیا جائے ، قانون سازی مقننہ کا کام ہے ، ربا کا لفظ قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے ۔ اس حوالے سے نہ عدالت بحث کر سکتی ہے نہ کوئی اور کرسکتا ہے ۔ اب اگر عدالت شریعہ کے پاس فیصلہ کرنے کے اختیارات ہی نہیں تو سماعت کیوں کی جا رہی ہے ۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر ڈاکٹر فرید پراچہ نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ آئی ایم ایف نے بھی اسلامی معاشی نظام کو بہترین قرار دے رکھا ہے ۔ جماعت اسلامی کی طرف سے تحریری معروضات جمع کرائی جا چکی ہیں ۔ حکومتوں نے برسوں سے سود کے معاملے کو جس طرح لٹکایا ہوا ہے اس سے بدنیتی واضح ہے ۔ خطرہ ہے کہ بینکوں کا تمام نظام بیٹھ جائے گا اور جو غیر ملکی قرضے چڑھا رکھے ہیں ان کا سود نہ دینے پر پاکستان کی کمزور معیشت تباہ ہو جائے گی ۔ لیکن اب بھی پاکستان کی معیشت کون سی مستحکم ہے ۔ بھیک پر گزارہ ہے اور جو قرض لیا جاتا ہے اس کا بڑا حصہ سود میں نکل جاتا ہے ۔ یہ جو دوسرے لوگوں کو مطمئن کرنے کی بات کی گئی ہے تو یہ وہی سود خور ہیں ۔صاف ظاہر ہے کہ معاملہ ایسی ہی بحثوں میں مزید الجھایا جائے گا ۔