ایوان کے تقدس کی پامالی

326

قومی اسمبلی میں ملک بھر سے عوام کے منتخب نمائندے جمع ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان نمائندوں کا اصل کام قانون سازی ہے۔ لیکن کیا یہ کام ہوتا ہے یا ہوتا رہا ہے اور کبھی ہوا ہے تو کیا خوش اسلوبی سے ہوا ہے ؟ گزشتہ بدھ کو اس ایوان میں جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ نہ تو نئے تھے اور نہ ہی انہیں آخری کہا جاسکتا ہے۔ اس وقت جو قائد ایوان یعنی وزیر اعظم ہیں وہ بھی اس منصب پر پہنچنے سے پہلے قومی اسمبلی کو چوروں، ڈاکوؤں کا اجتماع کہتے رہے گو کہ وہ بھی اس کا حصہ تھے۔ اس کے اثرات عمران خان کی پوری پارٹی پر مرتسم ہوئے ہیں اور سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ بدھ کو معزز سمجھا جانے والا یہ ایوان چور، چور کے نعروں سے گونجتا رہا اور حزب اقتدار و اختلاف کے نمائندوں نے ایک دوسرے پر لفظوں کی خوب خوب گولہ باری کی جیسے زبان کے زور پر جنگ جیت لی جائے گی۔ لیکن کیا یہ واقعی کوئی جنگ ہے؟ جمہوریت اور اس کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں لیکن بیشتر لوگ جمہوریت کے ’’ج‘‘ سے بھی واقف نہیں۔ جمہوریت تو یہی ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں جو اکثریت حاصل کرلے وہ حکومت بنائے اور دیگر جماعتیں حزب اختلاف کا کاروبار سنبھال لیں۔ انتخابات میں دھاندلی یا ان کے شفاف ہونے پر اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کابھی ایک طریق کار ہے جو بہرحال ایوان سے باہر ہے۔ حکومت کے کسی بھی کام سے اختلاف کرنا حزب اختلاف کا کام ہے لیکن اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہے تو اس سے عوام کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ حکومت میں موجود بعض لوگ اٹھتے بیٹھتے دوسروں کو چور، ڈاکو کہنے سے باز نہیں آتے اور اعتراض کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں ۔ ہم نے کسی کا نام تو نہیں لیا پھر کسی کو برا کیوں لگے۔ اب اگر کسی کو فساد چودھری یا سیاسی خانہ بدوش کہا جائے تو اسے بھی برا نہیں لگنا چاہیے۔ تاہم اب بات منہ در منہ ایک دوسرے کو چور کہنے تک پہنچ گئی ہے۔ کہیں عوام میں یہ تاثر قائم نہ ہو جائے کہ سب ہی چور ہیں کیوں کہ دونوں طرف سے ایوانوں میں پہنچنے والے عوام ہی کا انتخاب ہیں ۔ وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے ایوان میں الزام لگایا کہ ن لیگ کی حکومت نے پانی چوری کیا اور نواز شریف نے سندھ کے حق پر ڈاکا ڈالا۔ فیصل واوڈا کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے بالواسطہ طور پر نواز شریف کو چور قرار دیا جس پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بپھر کر جواب دیا کہ میں آپ کو اور آپ کے والد کو چور کہوں گا۔ فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ میری تہذیب یہ نہیں سکھاتی کہ آپ کے والد کو چور کہوں۔ نوجوان اور شعلہ بیان وزیر مراد سعید بھی کود پڑے اور فرمایا سب کو معلوم ہے تصدیق شدہ چور کون ہے۔ ان کا اشارہ سابق وزیر اعظم، ان کے خاندان اور موجودہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور ان کے خاندان کی طرف تھا جن پر مقدمات چل رہے ہیں ۔ مراد سعید جس انداز سے خطاب کررہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ ایوان میں نہیں کسی جلسے میں ہیں۔ اور پھر پنجاب کے سابق وزیر قانون اور ن لیگ کے رکن اسمبلی رانا ثنا ء اللہ بھی میدان میں اتر گئے۔ انہوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے کسی کو یہودی بچہ بھی قرار دے دیا اور عمران خان کی دوسری سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب کے چند حوالے بھی دیے جن کے نشر ہونے کے بعد اسپیکر نے حذف کروا دیے۔فیصل واوڈا کو پیش کش کی گئی کہ پانی چوری کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کردیں مگر فیصل کا کہنا تھا کہ کمیٹی کی ضرورت نہیں، وہ خود اس کی رپورٹ پارلیمان میں پیش کریں گے۔ بہرحال تمام ارکان اسمبلی کو مل کر ایوان کا تقدس بچانا ہوگا، بات اب باپ، دادا تک پہنچ گئی ہے۔