ایک طویل غیر حاضری کے بعد قارئین کی خدمت میں پھر حاضر ہو رہے ہیں اب تک کیوں غیر حاضر تھے کہ اس کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔ بس کبھی کبھی بالکل خاموش رہنے کو دل چاہتا ہے، اس درمیان میں بہت سے واقعات سانحات گزر گئے لیکن ہم چپ ہی رہے۔ عدالت عالیہ کا آسیہ ملعونہ کے حوالے سے جو فیصلہ آیا ہے اس پر تفصیلی بات ہو سکتی ہے اس حوالے سے ہمیں جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر جناب راشد نسیم کا یہ بیان پسند آیا کہ ہمارے ججوں کو توہین عدالت تو سمجھ میں آجاتی ہے لیکن توہین رسالت سمجھ میں نہیں آتی اس موضوع پر سردست ایک نکتہ بیان کر کے ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے اپنا فیصلہ اردو میں لکھا ہے کہ عوام اسے پڑھ لیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر لوئر کورٹ کا وہ فیصلہ جس میں سزائے موت کاحکم دیا گیا ہے اور ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ جس میں اس سزا کو برقرار رکھا گیا ہے دونوں کا اردو ترجمہ شائع کردیا جائے تاکہ عوام اسے بھی دیکھ لیں۔
استنبول کے سعودی سفارت خانے میں امریکا میں مقیم سعودی صحافی خاشق جی کا جو بھیانک قتل ہوا ہے اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، اس حوالے سے لکھنا چاہتا تھا اتفاق سے ہمارے سینئر اور کہنہ مشق کالم نگار جناب مسعود انور نے اپنے مضمون میں ان ہی نکات پر بات کی ہے انہوں نے خاشق جی کے قتل کے ساتھ اور بین الاقوامی تبدیلیوں کو اس حادثے کے ساتھ جوڑا ہے یہاں تک کہ پاکستان میں آسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلے کو بھی اس میں شامل کیا ہے اپنے اگلے مضمون میں ان کو ان سب کڑیوں کو آپس میں ملا کر نتیجہ اخذ کرنا تھا لیکن ایک ہفتہ ہو گیا ان کی دوسری قسط شائع نہیں ہوئی اس لیے ہم اس سانحے کو اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسعود بھائی کی اس بات سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ اس قتل کے حوالے سے امریکا، ترکی اور سعودی عرب تینوں باخبر ہی نہیں بلکہ کسی نہ کسی درجے میں اس سازش میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک ہیں۔ اس لیے کہ امریکا کا تو کام ہی یہ ہے کہ چور سے کہتا ہے چوری کر اور پھر جس گھر میں چوری ہوتی ہے انہیں بھی خبردار کردیتا ہے بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ کسی سطح پرخود خاشق جی کی چھٹی حس بھی کچھ نہ کچھ خطرے کی بو سونگھ رہی تھی جب ہی تو گوگل سسٹم سے منسلک اپنے ہاتھ کی گھڑی اپنی منگیتر کو دے کر سفارت خانے کے اندر گئے اور ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو میرے فلاں دوست کو اطلاع کر دینا وہ معاملات سنبھال لے گا لیکن خود خاشق جی کو اپنے اس خوفناک انجام کا اندازہ نہیں تھا ابھی کچھ دن قبل اس کی منگیتر کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ خاشق جی کے بجائے میں سفارت خانے کے اندر جاتی اور خاشق جی باہر ہی رہتے اور شاید اس انجام سے بچ جاتے۔
جب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا پہلا دورہ سعودی عرب کیا تھا تو سعودی حکمرانوں نے ان کا اتنا شاندار استقبال کیا تھا کہ شاید کسی امریکی صدر کو ایسا عظیم الشان پروٹو کول ملا ہو اس لیے سعودی بادشاہت سے ٹرمپ کی دوستی جو تقاضے ہیں اسی تناظر میں یہ کہا گیا ہو کہ آپ کے اخبار سے وابستہ ایک صحافی نے ناک میں دم کررکھا ہے جواب میں کہا گیا ہو کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں اور پھر پوری منصوبہ بندی کر کے دے دی گئی ہو جس میں بظاہر سعودی شہنشاہوں کی خواہشات اور مفادات پورے ہوتے نظر آرہے ہوں لیکن دراصل امریکا کو اپنے مفادات کی طویل المعیاد منصوبہ بندی کرنا تھی آگے چل کر کس طرح سعودی عرب پر اپنے شکنجے مزید سخت کرنا ہیں۔
تقریباً تین عشرے قبل کا وہ منظر ذہن میں تازہ کریں جب بغداد میں امریکی سفیر صدر صدام کے سامنے بیٹھی ہوئی یہ کہہ رہی تھیں کہ عراق اگر کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرلے گا تو امریکا کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا اور پھر جب عراق نے کویت پر حملہ کردیا تو عرب ممالک کو عراق سے جنگ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خود اپنی فوج سعودی عرب میں اتاردی جو اصل مقصد تھا۔ تھوڑے دنوں کی جنگ کے بعد کویت کی اپنی اصل حیثیت تو بحال ہو گئی لیکن عراق نہ صرف بد حال ہوگیا بلکہ اس کی تباہی کے سفر کا ایک طرح سے آغاز ہو گیا۔ اسی طرح خاشق جی سے کہا گیا ہو کہ آپ ترکی میں سعودی سفارت خانے اپنی پہلی بیوی کے طلاق کے کاغذات کی تصدیق کرالیں ورنہ تو امریکا کے ایک بااثر صحافی کے لیے یہ کوئی مشکل کام تھا کہ امریکا میں سعودی سفارت خانے سے یہ کام کرالیا جاتا ہو سکتا ہے اس میں کوئی قانونی مجبوری ہو۔ اس لیے کہ جس شام کو خاشق جی استنبول کے سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے اسی دن صبح ایک جہاز سے پندرہ سعودی اہلکار اپنے سفارت خانے میں آئے تھے پہلے یہ خبر آئی کہ جیسے ہی خاشق جی سفارت خانے کے اندر داخل ہوئے ان پر تشدد کیا گیا صحافی شاہ زیب خانزادہ نے جو تفصیل بتائی اس میں کہا گیا کہ خاشق جی پر شدید تشدد کیا گیا پھر انہیں ایک میز پر لٹا کر زندہ حالت میں ان کے جسم کے حصوں کو کاٹا گیا ایک خبر یہ بھی ہے انہیں میز پر لٹا کربے ہوشی کا انجکشن دیا گیا پھر ان کے جسم کے ٹکڑے کیے گئے ان پندرہ افراد کا انچارج ایک ڈاکٹر تھا جو اپنے ساتھ وہ کیمیکل لایا ٹکڑوں کو تحلیل کرکے مائع کی شکل میں تبدیل کردیتا۔ اب اس پورے دلخراش واقع میں کئی سوالات اٹھتے ہیں کہ
سعودی عرب کو کیسے معلوم کہ اس تاریخ کی شام کو خاشق جی استنبول کے سفارت خانے میں آئیں گے ظاہر ہے کسی نے اطلاع دی ہوگی اسی طرح خاشق جی نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہوگا کہ مجھے وہ گرفتار یا اغوا کرکے سعودی عرب لے جائیں گے جہاں میری زندگی کو خطرہ ہے پھر انہیں جدید آلات سے آراستہ کیا گیا ہوگا اور یہ یقین دہانی کروائی گئی ہو گی کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا ترکی میں یہ لوگ ہوں گے جو تمہاری مدد کریں گے اب یہ بات کہ ترکی کو یہ سب باتیں جو وہ روزآنہ بریکنگ نیوز طرح دنیا والوں کو بتا رہا ہے کیسے معلوم ہوئیں اب اس کا یہ بیان آیا ہے کہ خاشق جی کا گلا گھونٹ کر انہیں ہلاک کیا گیا پھر ان کی انگلیاں کاٹی گئیں اور پھر جسم کے ٹکڑے کیے گئے۔ پہلے تو ٹرمپ نے دھمکی آمیز بیان دیا کہ سعودی عرب کو اس کی سزا دی جائے گی اور اب کہہ رہے ہیں کہ ایک آدمی کی خاطر اپنے وہ معاہدے تو ختم نہیں کرسکتے جس میں دس ہزار سے زاید روزگار کے مواقع ملنے کی امید ہے، لیکن بالواسطہ طور پر وہ ترکی کے ذریعے سعودی عرب پر دباؤ بڑھا رہا ہے اور اس کے صلے میں ترکی کی معیشت جو ventilater پر جانے والی تھی اس میں کچھ بہتری آئی ہے۔ ترکی نے پہلے یہ مطالبہ کیا کہ ملزموں کو ہمارے حوالے کیا جائے کیوں کہ جرم ہماری سرزمین پر سرزد ہوا ہے سعودی عرب کا کہنا ہے آدمی ہمارا قتل ہوا ہے ملزمان بھی سعودیہ تعلق رکھتے ہیں اس لیے مقدمات ہم چلائیں گے بہر حال سعوی عرب بین الاقوامی دباؤ میں ہے کہ اس نے یہ تو قبول کرلیا کہ خاشق جی کا قتل ترکی میں سعودی سفارت خانے کے اندر ہوا ہے۔ سفارت خانہ چاہے کسی ملک میں ہو سفارت خانے کی حدود اس ملک کی حدود تصور کی جاتی ہے ہمارا خیال ہے کہ جو پندرہ یا اٹھارا افراد گرفتار ہیں ان سب کو موت کی سزا دے دی جائے گی اگر ان میں سے کوئی ایک بھی بچ گیا تو وہ اصل مجرم کے بارے میں پوری دنیا کو بتا دے گا۔