شریفوں کی انقلابیت کیا ہوئی؟

382

میاں نواز شریف انقلابی بھی ہوگئے تھے اور نظریاتی بھی۔ ان کی انقلابیت اور ان کے نظریاتی پن کا اثر ان کی دختر نیک اختر مریم نواز پر بھی ہوا۔ نتیجہ یہ کہ برف میں آگ لگ گئی مگر میاں نواز شریف اور ان کے پرستاروں کو میاں صاحب کی انقلابیت اور نظریاتی تشخص کے حوالے سے غلط فہمی ہوگئی تھی۔ میاں نواز شریف اصل میں غصے سے کھول رہے تھے اور غصے کو انہوں نے انقلابی رویہ اور نظریاتی جدوجہد سمجھ لیا۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ غصے کی ایک قسم بڑی مقدس ہوتی ہے۔ عام طور پر غصے کا مرکز انسان کی اپنی شخصیت، اپنی انا یا اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ان تمام دائروں میں غصہ حرام ہے۔ لیکن غصے کی ایک قسم وہ ہے جو عقاید، اصولوں اور اقدار کے تحفظ کے لیے بروئے کار آتی ہے۔ یہ غصہ مقدس ہے۔ زندگی کی علامت ہے۔ اس لیے کہ اس کا تعلق ان چیزوں سے ہے جن کی وجہ سے انسان، انسان بنتا ہے۔ جن کی وجہ سے انسان مسلمان اور مومن کہلاتا ہے۔ میاں نواز شریف کیا بڑے بڑوں کو یہ غصہ نصیب نہیں ہوتا۔ چوں کہ میاں صاحب اور ان کی دختر نیک اختر کا غصہ شخصی اور انفرادی تھا اسی لیے شریف خاندان زیادہ دنوں تک اس کا بوجھ نہ اٹھا سکا اور جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نواز شریف بیک وقت اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور عمران خان تینوں سے نبردار آزما تھے۔ ان کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ ’’خلائی مخلوق‘‘ تھی۔ عدلیہ خلائی مخلوق کی آلۂ کار تھی اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ تھے مگر میاں صاحب جیل سے باہر آئے تو وہ خلائی مخلوق کا ذکر ہی بھول گئے۔ عدلیہ اچانک ان کی محبوب اور آزاد ادارہ ہوگئی۔ البتہ عمران خان ابھی تک شریفوں کا ہدف ہیں۔ نواز شریف ہوں یا شہباز شریف، حمزہ شہباز ہوں یا نواز لیگ کے عام رہنما جسے دیکھیے عمران خان کو ملامت کررہا ہے۔ عمران خان کو ہدف تنقید بنارہا ہے۔ عمران خان پر لعنت بھیج رہا ہے مگر عمران خان خود کچھ بھی نہیں۔ شریفوں کے بیانیے کے مطابق عمران خان سیاست دان بنے اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے۔ شریف کو پاناما میں سیاسی شہید بنایا عدلیہ نے جو شریفوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی ہے۔ 2018ء کے الیکشن ’’چوری‘‘ ہوئے اور عمران خان وزیراعظم بنے اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے۔ چناں چہ شریفوں کو تنقید کرنی چاہیے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ پر۔ مگر تمام شریف اور تمام نواز لیگی نہ خلائی مخلوق پر بات کررہے ہیں نہ عدلیہ کی پگڑی اچھال رہے ہیں وہ سیاسی گالیاں دے رہے ہیں تو عمران خان کو۔ اردو کا محاورہ ہے ’’دھوبی پر بس نہیں چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیے‘‘۔ ظاہر ہے دھوبی کو چھوڑ کر گدھے کے کان اینٹھنا انقلابی طرزِ عمل ہے نہ نظریاتی رویہ۔ یہ بزدلی ہے۔ یہ سودے بازی کا اشتہار ہے۔ یہ ڈھیل ہے۔ یہ ڈیل ہے۔
شریفوں کا کہنا ہے کہ نہ کوئی ڈیل ہوئی ہے نہ ہمیں کوئی ڈھیل ملی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نواز لیگ کے رہنما رانا مشہود نے صاف کہا تھا کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کی گڈ بک میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر سے نواز لیگ کے لوگ رابطے میں ہیں۔ مگر شاید رانا مشہود اپنی اوقات سے زیادہ گفتگو کرگئے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کا درست اندازہ نہ کرسکے۔ چناں چہ میاں شہباز شریف کئی مقدمات میں دھرلیے گئے۔ لیکن یہ شہباز شریف کی گرفتاری کی واحد توجیہہ نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کی ایک توجیہہ یہ بھی ہے ’’سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے عزت کے سوا‘‘ کے مصداق میاں شہباز شریف کے پاس سب کچھ ہے مگر سیاسی ساکھ اور ووٹ ان کے پاس نہیں ہے۔ سیاسی ساکھ ہے تو میاں نواز شریف کی اور ووٹ بینک ہے تو ان کا۔ سوال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے معاشروں میں سیاسی ساکھ اور ووٹ بینک کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اس کے کئی طریقے ہیں مگر آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ رہنما جیل چلا جائے اور اس کی جیل ایک جانب اس کی ’’جرأت‘‘ کی عکاس ہو اور دوسری جانب اس کی ’’مظلومیت‘‘ کی۔ میاں شہباز شریف جب سے جیل گئے ہیں وہ ’’جرأت مند‘‘ بھی زیادہ ’’نظر‘‘ آرہے ہیں اور ’’مظلوم‘‘ بھی زیادہ ’’دکھائی‘‘ دے رہے ہیں۔ چناں چہ ان کے قید خانے کے دروازے پر ’’کام جاری ہے‘‘ کی تختی بھی لگائی جاسکتی ہے اور ان کے قید خانے کے دروازے پر Leader in Making یا Leader made in jail بھی لکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ عمران خان کی پارٹی کے رہنما قیصر خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے شہباز شریف کا Production Order بھی جاری کیا اور جب اسمبلی میں آکر شہباز شریف نے ایک گھنٹے سے زیادہ تک تقریر فرمائی پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی نے کوئی شور مچایا نہ ہنگامہ کیا۔ نہ شہباز شریف کی تقریر میں کوئی رکاوٹ ڈالی۔ حالاں کہ یہ عمران خان کے ’’شوباز شریف‘‘ کی تقریر تھی جو عمران خان کے بقول نواز شریف کی طرح ہی کرپٹ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کی دشمن پی ٹی آئی میں اتنا ظرف کہاں سے پیدا ہوگیا کہ وہ شہباز شریف کو ایک گھنٹے تک خاموشی سے سنے؟۔
نواز لیگ ایک طویل عرصے تک یہ باور کراتی رہی کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کلثوم نواز کا سوگ منارہے ہیں مگر اب تو کلثوم نواز کا چہلم گزرے بھی عرصہ ہوگیا لیکن شریفوں کی زبانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟۔
اس سوال کا ایک جواب یہ دیا جارہا ہے کہ شریف لوگ بہتر وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال کی ایک بہتر تعبیر ہے۔ میاں نواز شریف نے ڈیل کی ہو یا انہیں ڈھیل ملی ہو میاں نواز شریف بہرحال پنجاب میں مقبول ہیں اور مقبول رہنما انتظار کرنے کی حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے۔ مگر میاں نواز شریف جو بات نہیں سمجھتے وہ یہ ہے کہ بہتر حالات کے انتظار کا مفہوم خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔ حالات کا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی وہ آپ کے اندازے کے مطابق رونما ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ حالات جب انسان کی خواہش یا تجزیے کے مطابق رونما نہیں ہوتے تو انسان کی ساری ساکھ تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور اس کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مخدوش ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی مقبول رہنما اور مقبول جماعت خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو یہ اس کی نفسیاتی اور ذہنی شکست ہوتی ہے۔ شکست کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پہلے انسان کے دل و دماغ میں واقع ہوتی ہے، عمل میں بعد میں ڈھلتی ہے۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کے انتظار کا مفہوم ذہنی و نفسیاتی سطح پر شکست کو تسلیم کرکے عمل میں فتح کی توقع کرنا ہے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ خواہ میاں صاحب کے بارے میں کچھ بھی کہہ رہی ہو یا کررہی ہو وہ بہرحال میاں نواز شریف کی سیاسی طاقت سے خوف زدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب پنجاب میں مقبول ہیں اور ان کی مقبولیت میں پاناما وغیرہ نے کوئی خاص کمی نہیں کی۔ اتفاق سے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا مرکز بھی پنجاب ہی ہے۔ میاں نواز شریف کی مقبولیت کا مرکز سندھ، کے پی کے یا بلوچستان ہوتا تو میاں صاحب اب تک پھانسی کے پھندے پر جھول چکے ہوتے۔ شیخ مجیب الرحمن ملک کی 56 فی صد آبادی میں مقبول تھا مگر اس کی مقبولیت کا مرکز مشرقی پاکستان تھا۔ چناں چہ وہ غدار بھی قرار پایا اور اس کی اکثریت کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا جیسے اس کی کوئی اوقات ہی نہ ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سندھ میں مقبولیت بھی ان کی جان نہ بچا سکی۔ جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کو بہیمانہ انداز میں قتل کرکے ملک کے جغرافیائی اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کو داؤ پر لگادیا مگر اس بات کی رتی برابر بھی پروا نہ کی کہ نواب اکبر بگٹی کا قتل ملک کے لیے کیا نتیجہ پیدا کرے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی قوت کے مرکز میں مقبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب بار بار اقتدار سے باہر ہو کر کسی نہ کسی طرح پھر اقتدار میں آتے ہیں۔ اس وقت میاں صاحب مشکلات کا شکار ہیں مگر وہ اب بھی اپنے یا اپنی بیٹی کے سیاسی مستقبل سے مایوس نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا نے بالکل درست کہا ہے کہ ملک کی بیوروکریسی کے بہت سے اراکین کو ابھی تک اُمید ہے کہ میاں نواز شریف ایک بار پھر اقتدار میں آسکتے ہیں اس لیے بیوروکریسی کے کچھ لوگ عمران خان کی حکومت کی مزاحمت کررہے ہیں اور اس سے تعاون پر آمادہ نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کی اُمید کا مرکز کہاں ہے؟
میاں صاحب کی پنجاب میں مقبولیت کے سوا میاں صاحب کی اُمید کا ایک مرکز ان کا یہ تجزیہ ہے کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کررہی ہے وہ جنرل باجوہ مرکز ہے۔ جنرل باجوہ نہیں ہوں گے تو اسٹیبلشمنٹ کا رویہ مختلف ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ثاقب نثار نہیں ہوں گے تو عدلیہ کی صورتِ حال کچھ اور ہوگی۔ مگر میاں صاحب کا یہ تجزیہ درست نہیں۔ بلاشبہ حالات کی تمام تر خرابی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں میاں صاحب کے حامی موجود ہیں اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں تاہم میاں صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جنرل باجوہ کے لیے نہیں پوری فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک وجودی خطرہ یا Existential Threat ہیں۔ یعنی میاں صاحب ہوں گے تو اسٹیبلشمنٹ وہ نہیں رہے گی جو کہ وہ ہے۔