آسیہ ملعونہ اور بی بی سی کی شر انگیزی

482

گزشتہ بدھ اور جمعرات کی رات دیر گئے ملعونہ آسیہ مسیح کی ملتان جیل سے رہائی کے بعد بعض ذرائع ابلاغ نے اسے پورے خاندان سمیت ہالینڈ پہنچا دیا۔اس افواہ کی بنیاد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے رکھی جو عموماً باخبر اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔ بی بی سی نے خصوصی طیارے میں ہالینڈ کے سفیر کو بھی سوار کروا دیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں بھی اس طرح کی خبریں گشت کرتی رہیں اور یورپی پارلیمان نے مسرت کا اظہار بھی کردیا چنانچہ پاکستان کے چند ذرائع ابلاغ نے ملعونہ آسیہ کی ہالینڈ روانگی کو شہ سرخیوں میں نمایاں کیا ۔ لیکن دفتر خارجہ پاکستان کے ترجمان نے واضح طور پر آسیہ کے ملک سے باہر جانے کی تردید کی ہے۔ تاہم عدالت عظمیٰ کی طرف سے بے گناہ قرار دیے جانے پر اسے ملتان جیل سے رہا کردیا اور رات گئے اسلام آباد پہنچا دیا ہے۔ ایک خبر یہ بھی تھی کہ ملتان جیل سے رہائی کے موقع پر ہالینڈ کے ایک سفارت کار بھی موجود تھے۔ آسیہ کے ملک سے باہر جانے کی خبریں یورپ کی خواہشات کا عکاس ہیں۔ ایک طرح سے اس قسم کی خبریں جاری کر کے عوام کے ردعمل کا اندازہ بھی لگایا گیا ہے اور ممکن ہے کہ چند دن بعد آسیہ کو خاموشی سے باہر نکال دیا جائے تو عوام اسی تذبذب میں رہیں گے کہ شاید یہ افواہ ہی ہو۔ آسیہ کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکا اور اس کے لیے عدالت کا سہارا لیا گیا ہے۔ حکومت اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر تیار نہیں اور قانونی طور پر جب اسے بے گناہ قرار دیا گیا ہے تو وہ کہیں بھی جاسکتی ہے اور پھر لکیر پیٹی جاتی رہے گی۔ تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ بد عہدی کی سیاہ تاریخ رقم کی گئی ہے۔حکومت نے احتجاج کی آگ پر پانی ڈالنے کے لیے تحریک لبیک سے جو پانچ نکاتی معاہدہ کیا تھا اس کی شق نمبر دو ہے کہ ’’آسیہ مسیح کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ یہ قانونی کارروائی حکومت کو کرنی تھی جو نہیں کی گئی۔ شق نمبر ایک میں ہے کہ ’’ آسیہ مسیح کے مقدمے میں نظر ثانی کی اپیل دائر کردی گئی ہے جو مدعا علیہان ( تحریک لبیک) کا قانونی حق و اختیار ہے جس پر حکومت معترض نہ ہوگی‘‘۔ اور حکومت معترض نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسے قانونی حق قرار دیتی ہے۔ لیکن نظر ثانی کی دائرہ کردہ اپیل کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ تو وہی عدالت کرے گی جو آسیہ کو ہر شک و شبہ سے بالا تر قرار دے کر رہا کرچکی ہے۔ معاہدے کے باقی تین نکات محض خانہ پری ہیں مثلاً گرفتار شدگان کو فوراً رہا کیا جائے گا اور تحریک میں اگر شہادتیں ہوئی ہیں تو ان کے بارے میں فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ پولیس اور دیگر ادروں کی ذمے داری ہے۔ شہادتوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کی ذمے داری عوام کو اکسانے والوں پر بھی عاید ہوتی ہے۔ جہاں تک گرفتار شدگان کی رہائی کا تعلق ہے تو اس کے برعکس سیکڑوں افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں اور ٹیلی ویژن پر نظر آنے والے یا کسی وڈیو میں محفوظ تصاویر کی مدد سے گرفتاریاں جاری ہیں۔ عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ کسی کے پاس توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی کرنے کی وڈیوز ہیں تو فراہم کی جائیں۔ حکمران بار بار اعلان کررہے ہیں کہ جلاؤ، گھیراؤ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ تحریک لبیک نے تو ان گرفتاریوں پر ہاتھ کھڑے کردیے اور جب وڈیوز دکھائی گئیں تو صاف کہہ دیا کہ یہ تو ہمارے لوگ ہی نہیں ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ حکومت نے مولویوں سے این آر او کرلیا اور ان مولویوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جو تحریک چلا رہے تھے۔ بعض مبصرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ جو لوگ سامنے ہیں ان پر حکومت ہاتھ نہیں ڈال رہی اور ادھر ادھر کے لوگوں کو پکڑ رہی ہے۔ بہرحال آسیہ مسیح کے ملک سے باہر نکل جانے کی خبر کی بروقت تردید ہوگئی ورنہ تو بی بی سی نے بجھتی ہوئی آگ پر تیل چھڑک دیا تھا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ جب تک آسیہ مسیح کو مجرم قرار نہیں دیا جاتا اس کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ پھر مذکورہ معاہدے کی شق نمبر دو کا کیا ہوگا ؟