مصالحت اور دھمکیاں!

334

سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت میں’’ انڈر14‘‘ ٹیم کھیل رہی ہے ۔ گو کہ ددعویٰ انہوں نے حزب اختلاف کی پارٹی کے رہنما کی حیثیت سے کیا ہے لیکن بات غلط نہیں ہے ۔ اس کا اندازہ روزانہ عمرانی حکومت کے وزراء کے بیانات سے ہو جاتا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اپنے وزراء کو پابند کر دیں کہ وہ بے سوچے سمجھے بیان نہ دیا کریں ۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس ہی میں یہ طے کر لیا جائے کہ کس وزیر کو کیا کہنا ہو گا ۔ ملعونہ آسیہ کی رہائی کے فیصلے اور اس پر ملک گیر احتجاج کے حوالے سے روز ایک نئی بات سامنے آ رہی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو گزشتہ جمعرات کو یہ اعتراف کر لیا کہ دھرنے ختم نہ ہوتے تو حکومت گر جاتی ، مظاہرین سے مصالحتی انداز ہی میں نمٹ سکتے تھے۔چلیے ، اچھا کیا کہ حکومت کو گرنے سے بچا لیا لیکن احتجاج کے پہلے ہی دن وزیر اعظم نے جو دھمکیاں دی تھیں اور ریاست سے ٹکرانے والوں کو مزہ چکھانے کا اعلان کیا تھا ، وہ کیا تھا؟ جوش خطابت میں وہ بہت کچھ کہہ گئے تھے ۔ کیا اس وقت انہیں مصالحت کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ نہیں تھا؟ اب اگر اس پر ان کے مخالفین یہ کہیں کہ حکومت کرنا نہیں آتی یا یہ کہ انہیں اقتدار میں لے تو آیا گیا ہے لیکن اب تک اقتدار سونپا نہیں گیا تو کیا غلط ہوگا؟ یہ قابل تحسین ہے کہ خون خرابے سے بچنے کے لیے حکومت نے تحریک لبیک سے سمجھوتا کر لیا اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے طاقت سے کام نہیں لیا ۔ لیکن ان کے وزراء اب بھی متضاد باتیں کر رہے ہیں ۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی بھی آصف زرداری کے بقول ، انڈر14ٹیم کے کھلاڑی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے تحریک لبیک کو تین دن تک جاری فساد سے بری کرتے ہوئے سینیٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فسادی پارلیمان میں بیٹھی جماعتوں کے کارکن تھے ، جلاؤ گھیراؤ کے ذمے داروں کو نشان عبرت بنا دیں گے ۔ موصوف کا اشارہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف تھا کہ اصل فسادی ان جماعتوں کے کارکن ہیں ۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر یہ کیوں ہوا کہ حکومت نے معاہدہ تحریک لبیک سے کیا اور اس کی طرف سے احتجاج ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی فساد بند ہو گیا ۔ اگر اصل فسادی کچھ اور لوگ تھے تو فساد جاری رہنا چاہیے تھا ۔عمران خان نے 30 اکتوبر کو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سامنے آتے ہی فوری طور پر قوم سے جو خطاب کیا تھا اس میں انہوں نے ان عناصر کو فساد کا ذمے دار ٹھیرایا تھا جنہوں نے ججوں کو واجب القتل اور پاک فوج کے سربراہ کو غیر مسلم قرار دیا تھا ۔ کیا ان کا تعلق مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی سے تھا؟ لیکن چوں کہ ہر حکومت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر جرم ، ہر خرابی کی ذمے داری حزب اختلاف پر ڈالے اس لیے یہ فرض کماحقہ ، ادا کر دیا گیا ۔ وڈیو میں پنجاب کے ایک شہر کے رکن صوبائی اسمبلی کی تصویر بھی دکھائی گئی جس کا تعلق ن لیگ سے ہے ۔ لیکن عوام بھی اس بات سے واقف ہیں کہ دھرنوں پر کون لوگ بیٹھے ہوئے تھے جومعاہدہ ہوتے ہی منتشر ہو گئے ۔ اصولاًتو یہ بات صحیح ہے کہ فساد برپا کرنے اور عوام کی املاک تباہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے لیکن یہاں بھی تضاد نمایاں ہے جس پر آصف زرداری نے طنز کیا ہے کہ حکومت نے فساد کے ذمے داروں سے این آر او کر لیا ہے ، مولوی صاحبان کو چھوڑ دیا اور غریبوں کو پکڑا جا رہا ہے ۔ آصف زرداری بھی حکومت پر تنقید کا فرض ادا کر رہے ہیں لیکن ان کو موقع حکومت ہی دے رہی ہے ۔ شہریار آفریدی نے ایک طرف تو جلاو گھیراؤ کے ذمے داروں کو نشان عبرت بنانے کا اعلان کیا اور دوسری طرف اسی سانس میں فرمایا ہے کہ ہم احتجاج کرنے والوں کو گلے لگائیں گے اور تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف ڈنڈے نہیں اٹھائیں گے ، گولی نہیں چلائیں گے ، یہ وتیرہ سابق حکومتوں کا تھا ۔بہت اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ دھمکیوں کا کوئی جوڑ نہیں ۔ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ججوں ، فوج اور حکومت کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پر تحریک لبیک کی قیادت نے معاہدے میں معذرت کر لی ہے ۔ مذکورہ معاہدے کی پانچویں اور آخری شق یہ ہے کہ ’’ اس واقعے کے دوران میں جس کسی کی بلا جواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے ‘‘۔ اس سے زیادہ مبہم معذرت نہیں ہو سکتی اور ’’ بلا جواز‘‘ کا اضافہ بھی خوب ہے ۔ اس معاہدے کے بارے میں شہریار آفریدی نے جواز دیا کہ ریاست نے اس لیے معاہدہ کیا کہ ’’ نیا پاکستان‘‘ خون خرابے میں یقین نہیں رکھتا۔ یہ عزم بھی قابل تحسین ہے ۔ اسی کے ساتھ ایک خبر ہے کہ اسلام آباد میں قائم دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سرکاری ٹی وی حملہ کیس میں موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیر دفاع پرویز خٹک ، وزیر خزانہ اسد عمر اور عمران خان کے بہت قریبی دوست جہانگیر ترین کو 6 دسمبر کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کر دی ہے ۔ اس مقدمے میں وفاقی وزیر شفقت محمود اور خود عمران خان بھی ملوث ہیں لیکن عمران خان کو پیشی سے استثنا دیا گیا ہے ۔ پی ٹی وی پر حملے اور توڑ پھوڑ کا یہ مقدمہ 2014ء میں عمران خان کے دھرنے سے متعلق ہے ۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کہہ رہے ہیں کہ ’’قانون ہاتھ میں لینے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے، جو بھی قانون توڑے گا اور ریاست کی عمل داری کوچیلنج کرے گا اس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہو گی ۔ ‘‘ مذکورہ معاملے پر ان کی کیا رائے ہے؟