اب صحافت کی باری ہے؟

302

پاکستان کے خفیہ ادارے اور حکمرانوں کے ماتحت تحقیقاتی ایجنسیاں سب کی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ حکمرانی کریں تو ان کے سامنے سے ’’چوں‘‘ کی آواز بھی نہ آئے۔ اختلاف رائے اور مخالفت یا مزاحمت تو بہت دور کی بات ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں، سیاسی پارٹیوں، الیکٹ ایبلز،چودھریوں وغیرہ کو قابو میں کرلیا گیا ہے۔ بہت سارے امیر اور امیر ’’ترین‘‘ مختلف پارٹیوں میں بٹھائے جاچکے۔ الیکٹرانک میڈیا کنٹرول میں ہے۔ اشتہارات اور اشتہارات کے واجبات کے ذریعے پرنٹ میڈیا کو بھی کنٹرول کرلیا۔ صحافیوں کی تنظیموں اور پریس کلبوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ ہر تنظیم ان کے قابو میں نہیں ہے اور کراچی پریس کلب تو خاص طور پر ان قوتوں کا نشانہ ہے ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ لہٰذا جمعرات 8 نومبر کی رات کچھ نامعلوم لوگ ڈبل کیبن گاڑیوں میں سوار سادہ لباس میں پریس کلب میں داخل ہوگئے ان کے ساتھ پولیس کی وردی میں بھی لوگ تھے۔ پریس کلب کے لوگوں نے شناخت بھی کر لیا کہ ان میں سی ٹی ڈی کے اہلکار بھی شامل تھے۔ یہ لوگ کلب کے کچن، اسپورٹس کمپلیکس اور دیگر جگہوں کی تلاشی لیتے رہے اور چھت تک پہنچ گئے۔ جوں ہی ان لوگوں سے ان کی شناخت پوچھی گئی وہ وہاں سے پلٹے اور تیز رفتاری سے اپنی ڈبل کیبن گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار ہوگئے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم عمران کی تلاش میں آئے ہیں۔ یہ وضاحت دی گئی کہ موبائل لوکیٹ کرتے ہوئے یہ لوگ پہنچے تھے۔ پھر کیا ہوا۔ موبائل ہوا میں اڑ گیالوکیٹر بند ہوگیا۔ بندہ ہوا میں چلا گیا یا یہ سارا کچھ ڈراما تھا۔ اس ڈرامے کا اگلا حصہ یہ ہوا کہ اس چھاپا مار کارروائی کے دوران پریس کلب میں موجود افراد میں سے کسی کو نہیں چھیڑا گیا لیکن اگلے روز پریس کلب کے سینئر ممبر نصراللہ خان چودھری کو ان کے گھر سے اغوا کرلیا گیا۔ زیر حراست لینے کی واردات اسی طریقے سے ہوئی جو کراچی میں پہلے سے جاری ہے۔ حیرت ہے سعودی صحافی خاشق جی کے معاملے پر دنیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا بین الاقوامی ادارے چیخ پڑے سب کو تکلیف تھی کہ سعودی عرب نے ایک صحافی کو قتل کردیا ہے۔ اب وہ قوتیں کہاں ہیں جو آزادئ صحافت کی دعویدار ہیں۔ پاکستان میں تو اب کسی سے نہیں پوچھا جاسکتا کہ اغوا ہونے والا کہاں ہے۔ اسے کیوں کس نے اغواء کیا ہے اس نے کیا جرم کیا ہے۔ سپریم کورٹ، سپریم کورٹ ہر ایک کی زبان پر ہے تو ان معاملات میں بھی سپریم کورٹ کی خدمات لی جائیں سامنے لائیں ایسے کیسز کو، کیوں سامنے نہیں لاتے۔ اصل مسئلہ نصراللہ چودھری نہیں ہیں وہ تو جمعرات کی رات کو بھی وہیں بیٹھے تھے جہاں روز ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ تو کراچی پریس کلب اس کی یونین اور اس کے ذمے داروں کو دباؤ میں لانا ہے یہ لوگ ہر مظلوم کو پریس کلب میں آواز اٹھانے کا موقع دیتے ہیں۔ اب انہیں بھی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جس طرح زندگی کے تمام شعبے سر تسلیم خم کرچکے ہیں اس طرح آپ بھی سربسجود ہوجائیں۔ نصراللہ خان تو دو چار دن میں آ ہی جائیں گے لیکن اصل خرابی نصراللہ چودھری کی حراست نہیں ہے پریس کلب کی حرمت ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین سے پوچھا جائے وہ بڑے فخر سے کہیں گے صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ لیکن چوتھے ستون کو اس بری طرح ہلایا جائے بلکہ ایسے گرانے کی کوشش کی جائے جس طرح ایمپریس مارکیٹ میں تجاوزات گرائی جارہی ہیں تو پھر یہ ارکان پارلیمنٹ خاموش ہوجاتے ہیں۔ جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو رونے کی حد تک مظلوم صورت بنا کر پریس کلب آتے ہیں۔ آج پارلیمنٹ میں کیوں خاموشی ہے۔ عاصمہ جہانگیر کے وارث کہاں گئے۔ انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں۔ انصار برنی صحافیوں کے دوست! کہاں گئے۔ یہ گھروں سے راستے سے، راتوں کو غائب کرنے پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا جاتا ہے۔ کیا اخبار کے دفتر کو نوٹس دے کر عدالت میں طلب نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی پولیس، رینجرز، فوجی اپنے نام سے طلب کیوں نہیں کرلیتا۔ یہ سب پاکستانی ہیں آپ کے سامنے ضرور پیش ہوں گے۔ ایسے کاموں کے نتیجے میں تو کشمیر اور فلسطین کے ظالموں کو جواز ملتا ہے کہ آپ کے اپنے ملک میں بھی تو یہی ہوتا ہے۔ ہمیں کیا کہتے ہو۔ خدارا عقل سے کام لیں۔