مفتی رفیع عثمانی کا انتباہ

853

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے انتباہ دیا ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی اپیل کے بغیر آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیج دیا گیا تو کچھ نہیں پتا کہ پاکستان میں کتنا بڑا طوفان اٹھے گا۔ انہوں نے قوم کے نام اپنے کھلے خط میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلے سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان سے نکلنے کے راستے بھی متعین ہیں لیکن اب تک اس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ مفتی رفیع عثمانی نے صورتحال کا مکمل احاطہ کیا ہے جس قسم کی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے مختلف شرعی سزاؤں اور حد جاری کرنے کا طریقہ کار بھی واضح کیا ہے ساتھ ساتھ حکومت کو توجہ دلائی ہے کہ جو کام اسے کرنا ہے وہ کرے لیکن سب سے اہم بات جو ایک غلط فہمی کے طور پر دین بیزار طبقہ پھیلانا ہے کہ نعوذ باللہ اسلامی حدود کا قانون فرسودہ ہے، مفتی صاحب نے اس کے بارے میں دوٹوک بات کہی ہے کہ اللہ کے قانون میں غلطی نہیں فیصلہ کرنے والوں اور گواہوں سے غلطی ہوسکتی ہے۔ حکومت فیصلے کیخلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرے اور لارجر بنچ تشکیل دیا جائے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے کچھ دلائل دیے ہیں تو اس کا جواب دلائل سے ہی دیا جائے۔ یہ بات ہر طرح درست ہے کہ شبہ کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ مفتی صاحب کے طویل خط میں امت مسلمہ کے لیے رہنمائی بھی ہے لیکن زیادہ قابل توجہ باتیں حکومت پاکستان اور معزز عدلیہ کے لیے ہیں جس طرح ثبوت کے بغیر یا شبہات کے باوجود کسی کی جان نہیں لی جاسکتی اسی طرح غیر مسلموں کے دباؤ میں توہین رسالتؐ کے کسی مجرم کو رہا کرنے کے حیلے اختیار کیے جائیں یہ بھی غلط ہے۔ اب رہنمائی بھی مل گئی ہے اور مسئلے کے حل کا راستہ بھی تجویز کردیا گیا ہے اگر عدلیہ کے ججوں سے بات سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے تو اس کو مان لینے میں ان کی بڑائی ہے اور اگر غلطی بھی کی ہے اور تسلیم بھی نہیں کررہے تو پھر وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ قابل گرفت ہوں گے۔ مفتی رفیع عثمانی نے آسیہ مسیح کے حوالے سے جس خدشے کا اظہار کیا ہے وہ یوں ہی نہیں ہے بلکہ انہیں نظر آرہا ہے کہ حکمران شدید دباؤ میں ہیں اور اس دباؤ میں آکر کہیں اپیل نے بغیر اس کے فیصلے سے پہلے ہی آسیہ کو ملک سے نکال دیں گے۔ انہوں نے اس پر جس ردعمل کا خدشہ ظاہر کیا ہے وہ محض کسی طے شدہ معاہدے سے دبنے والا نہیں ہوگا بلکہ اس کو کنٹرول کرنا بھی ممکن نہ ہوگا۔ لہٰذا جو بھی کرنا ہے جلد کرنا ہے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔ اسلامی قوانین کے حوالے سے یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ حدود آرڈیننس جنرل ضیا کے قوانین تھے اور انہیں ختم ہوجانا چاہیے۔ حالانکہ حدود آرڈیننس کے نفاذ کے وقت اور اس سے قبل جس قسم کی علمی بحثیں کی گئیں اور ہر پہلو سے جائزہ لیا گیا تھا اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔مفتی رفیع عثمانی کا یہ کہنا درست ہے کہ اللہ کے قانون میں غلطی نہیں ہے فیصلہ کرنے والوں اور گواہوں سے ہوسکتی ہے بہت بنیادی نوعیت کی بات ہے یہ بات حکومت عدلیہ اور خصوصاً میڈیا کے سمجھنے کی بھی ہے کہ بریکنگ نیوز یا ریٹنگ کے چکر میں اسلامی حدود سے باہر نہ نکل جائیں۔ زیادہ وقت نہیں ہے تمام اداروں کو مل جل کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ حکومت اور عدلیہ کے لیے بھی مشورہ ہے کہ جس طرح وہ ہر معاملے میں اس کے ماہرین سے رائے طلب کرتے ہیں آسیہ مسیح کے معاملے میں بھی رائے لے لیں علمائے کرام اور دیگر ماہرین قانون کو بھی بلائیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں اور ٹرائل کورٹ کے ججوں کو بھی بلائیں ان سے پوچھیں کہ فیصلہ کیوں کیا۔ سزا کیوں برقرار رکھی، شبہات کن امور پر ہیں، آسییہ کے آنے کے طریقے پر، جرگے کے مقام پر، لوگوں کی تعداد پر، جرگے کی میزبانی پر، لیکن آسیہ آئی تھی، جرگہ ہوا تھا، لوگ جمع تھے 4 سو تھے یا 1000 یا دو ہزار لیکن جرگہ ہوا لوگ آئے تھے۔ میزبان کون تھا اس کی ایک بار پھر تفتیش کرنی چاہیے۔ اصل مسئلہ آسیہ کا اعتراف ہے اس نے کیا اور بار بار کیا۔ اس پر نظر ثانی کرلیں۔ یہاں تھوڑی سی سبکی ہوگی، وہاں بچ جائیں گے۔ ورنہ یہاں تو رہی سہی بھی عزت داؤ پر ہی لگی ہوئی ہے۔