سجاد میر صاحب کراچی آپ کا منتظر ہے

253

 

 

سجاد میر صاحب نے خواہش ظاہر کی ہے کہ کوئی میرا کراچی مجھے لوٹا دے۔ اتفاق ہے 8 نومبر کو ان کا مضمون پڑھا اور اسی وقت اپنے دفتر کی کھڑکی سے باہر جھانکا اور ایک جھٹکا سا لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میئر کراچی عدالت عظمیٰ کے احکامات کی آڑ میں سجاد میر صاحب کو پرانا والا کراچی واپس لوٹانے کی تیاری کررہے ہیں۔ جسارت آج کل ریگل چوک پر اکبر روڈ کے ساتھ واقع جمعیت الفلاح ہال کی دوسری منزل پر ہے۔ کھڑکی سے جو منظر نظر آیا اس سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سونامی یا زلزلے کے بعد یا کسی بم دھماکے کے بعد عمارتوں کے ملبے سے لوگ اپنا بچا کھچا سامان تلاش کررہے ہیں۔ یہ منظر صرف اکبر روڈ کی دکانوں کا نہیں ہے بلکہ پورے صدر کا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق عدالت عظمیٰ نے ٹریفک کی روانی میں رکاوٹوں کا سبب بننے والی تجاوزات کو ہٹانے اور راستے صاف کرنا کا حکم دیا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ کے علاقے کو ماڈل علاقہ بنانے کی ہدایت دی تھی۔ بڑی کوشش کے باوجود ہمیں سائن بورڈز ہٹانے بلکہ توڑنے کے احکامات نہیں ملے۔ لیکن تین چار دن کے آپریشن کے بعد صدر کا علاقہ فی الحال اجڑا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہوسکتا ہے چیف جسٹس کے احکامات کو صرف میئر کراچی اور ان کا ڈیمالیشن اسٹاف سمجھا ہو لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ چیف جسٹس بے ہنگم توڑ پھوڑ کا حکم دیں گے۔ مزید ظلم یہ ہے کہ جن دکانداروں نے ہزاروں روپے کے چالان کے ایم سی کو دے کر بورڈ لگائے تھے ان کے بورڈز بھی توڑ دیے گئے اور بے دردی سے ٹکڑے کرکے پھینک دیے گئے۔
سجاد میر صاحب نے لکھا ہے کہ ’’شہر اینٹ اور پتھر کی دیواروں سے عبارت نہیں یہ اس خون سے عبارت ہے جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ گویا شہر میں علمی لگن بھی تھی۔ میر صاحب میئر کراچی نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے زیادہ جو طوفان اٹھایا ہے وہ اختیارات نہ ہونے کا ہے۔ وہ کچرا اٹھانے کا اختیار نہیں رکھتے لیکن اسے بڑھانے کا پورا پورا بلکہ اس سے بھی زیادہ اختیار استعمال کررہے ہیں۔ سجاد میر صاحب نے درست کہا کہ جی چاہتا ہے کہ شہر کے درمیان کھڑے ہو کر چیخ چیخ کر اعلان کروں کہ اس شہر کے قاتل ہم ہیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے جو لکھا ہے وہ ان کی غلط فہمی ہے یا غلط اطلاع ان تک پہنچائی گئی ہے کہ کراچی پھر بدل رہا ہے۔ میر صاحب ایسا نہیں ہے۔ کوئی بدل و دل نہیں رہا۔ اتنا بڑا ظلم ہمارے شہر کے ساتھ ہورہا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کراچی بدل رہا ہے۔ علم و دانش کے
شہر، ادبی محفلوں سے آباد راتیں، پرسکون چوراہے، پرامن راتیں اور زندگی سے بھرپور دن، ان میں سے کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے حکم کو جس طرح استعمال کیا جارہا ہے اس کے نتیجے میں رکاوٹیں بھی دور ہوئی ہیں۔ تجاوزات بھی ختم کی گئی ہیں لیکن شہر کا حسن برباد کردیا گیا ہے چونکہ اس ملبے کو اٹھانے کی ذمے داری بھی ان ہی بے اختیار میئر پر ہوگی، اس لیے وہ اسے نہیں اٹھا سکیں گے۔ کیونکہ یہ کام تو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی کا ہے۔ بلدیہ کے پاس اختیار نہیں، ظلم کی بات یہ ہے کہ اس شہر کے خون میں بوری بند لاشوں، لسانیت، علاقائیت، دہشت گردی، لوٹ مار کو شامل کرنے والوں کو سب پہچانتے ہیں۔ ان کے خلاف 12 مئی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، طاہر پلازہ، بھتہ پرچی، ہزاروں نوجوانوں کا قتل، نقل کلچر، پاکستان کے خلاف نعرے، را سے مدد طلب کرنے کے الزامات میں مقدمات ہیں۔ بہت سوں کے ثبوت موجود ہیں وہ سب کے سب پھر معزز بنے ہوئے ہیں، کوئی رکن اسمبلی ہے کوئی وزیر کوئی میئر کوئی سینیٹر۔ کوئی پارٹی لیڈر۔ کسی نے الطاف حسین کو گالی دے کر چار آنسو بہا کر معافی تلافی کرالی، اب سب اسی شہر پر مسلط ہیں۔ میر صاحب عدالت عظمیٰ کے حکم پر ماڈل کراچی آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس میں علمی لگن نہیں ملے گی، دائیں بازو اور بائیں بازو والوں کے شیر و شکر ہونے کا خواب بھی
نہیں ہے یہاں تو محض پارٹی اختلاف پر مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں، لیکن سجاد میر صاحب کو ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس خاکستر میں وہ ساری چنگاریاں موجود ہیں جن کا حوالہ انہوں نے دیا۔ جس دن موقع ملا یہ چنگاریاں پھر آگ بن جائیں گی۔ لسانیت، نفرت اور دہشت گردی کو بھسم کردیں گی۔ بس اس شہر کو محبت دینے کی ضرورت ہے، مسئلہ یہی ہے کہ ایک عرصے سے اس شہر کو لوٹنے کے لیے لوگ سیاست کررہے ہیں، جب عبدالستار افغانی اپنی دوسری مدت کا پہلا بجٹ پیش کررہے تھے تو انہوں نے بجٹ کے حجم کا ذکر کیا اس پر ایوان میں غالباً غلام احمد اسمٰعیل نے یہ جملہ کہا کہ افغانی صاحب اس رقم کا ذکر بار بار نہ کریں کہیں وفاق والے بلدیہ کراچی کو اپنے کنٹرول میں نہ لے لیں اور یہی ہوا افغانی صاحب کو دوسری مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور پھر لوٹ مار کا طویل دور شروع ہوا۔ 1987ء کے بعد 15 سال لوٹ مار چلی بالآخر پھر ایک آمر جنرل پرویز کو بلدیاتی نظام کا سہارا لینا پڑا اور انتخابات میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان پہلے سٹی ناظم بنے اور پھر وہی کہانی دہرائی گئی۔ سٹی گورنمنٹ کا نظام کھڑا کیا گیا، مستحکم کروایا گیا اور پھر لٹیروں کو لا بٹھایا گیا۔ لیکن میر صاحب آپ کراچی ضرور آئیں پرانی محفلوں کو پھر آباد کریں کچھ اس خاکستر کو کریدیں۔ یہ ضرور شرر بار ہوگا۔ اس شہر کے پرانے لوگ اب بھی موجود ہیں اس کے لیے دل و جان نچھاور کرنے والے موجود ہیں، آپ خود اپنا کراچی واپس لیں۔