اصل مسئلہ قادیانی ہیں

458

ٹنڈو آدم سے ایک خبر آئی ہے۔ ایک پرانا مطالبہ دہرایا گیا ہے اور آسیہ مسیح کے نئے کیس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ازسرنو ٹرائل کیا جائے۔ پرانا مطالبہ قادیانیوں کو سرکاری عہدوں سے برطرف کرنے کا ہے۔ لیکن اس مرتبہ یہ محض 37 ویں آل سندھ ختم نبوت کانفرنس کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس مطالبے کا وقت اور موقع کی مناسبت نہایت اہم ہے۔ توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ مسیح کے کیس کا 31 اکتوبر کو فیصلہ بھی نہایت اہم اور تاریخی اعتبار سے قابل غور تھا۔ اب بھی قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹانے کا معاملہ محض مطالبہ دہرانے کی حد تک نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی قادیانی حد سے بڑھنے لگتے ہیں تو ان کے خلاف ہر دم بے دار مسلمانوں کی تنظیمیں حرکت میں آجاتی ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت، عالمی مجلس، جماعت اسلامی، مجلس احرار، جمعیت علما اسلام اور جمعیت علما پاکستان سمیت تمام تنظیمیں ایک آواز ہوجاتی ہیں لیکن اس کے بعد ہمیشہ یا اکثر و بیشتر یہ ہوا کہ کبھی شیعہ سنی فساد کرادیا گیا، کبھی دیوبندی بریلوی فساد۔ اس مرتبہ بھی اس کی کوشش تھی لیکن دیوبندی، بریلوی قیادت اور شیعہ اکابرین نے ایسی کوششوں کو ناکام بنایا لیکن قادیانی باز آنے والے کب ہیں۔ ان کے بااثر لوگوں کی چالوں کے نتیجے میں 31 اکتوبر کو کئی سال سے پڑے ہوئے مقدمے کا فیصلہ سنادیا گیا۔ اس میں فیصلہ کرنے والوں کی نیتوں پر شبہ نہیں لیکن کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوا کہ ستمبر اکتوبر میں قادیانیوں کے خلاف جن توپوں کا رُخ تھا ان کو کلیدی عہدوں سے ہٹانے کے مطالبات ہو رہے تھے وہ سب حکومت اور عدلیہ کے خلاف ہوگئے، چند روز میں سب قادیانی سازشوں کو بھول گئے۔ ایک طوفان اٹھا اور ملک بھر میں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ نہایت خوبصورتی سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور عوام میں فاصلے بڑھ گئے۔ چیف جسٹس کی پوزیشن بھی داؤ پر لگ گئی۔ آرمی چیف بھی گھسیٹے گئے، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور پارلیمنٹ سب کو پریشانی لاحق ہوگئی اور لوگ قادیانیوں کا مسئلہ بھول گئے، ختم نبوت کانفرنس نے اس اہم معاملے کو پھر اٹھایا ہے اور یہ مطالبہ کیا ہے کہ قادیانیوں کو کلیدی سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے۔ دراصل یہی فساد کی جڑ ہے۔ یہ لوگ کہیں مسلمان بن کر بیٹھے ہیں اور کہیں کھلم کھلا قادیانی ہیں۔ سرکاری فائلوں میں ایسی ترامیم اور شقیں لگواتے ہیں کہ چند روز، ہفتوں یا مہینوں بعد آسیہ مسیح جیسے فیصلے خود بخود ہوجاتے ہیں، یا ایسا فیصلہ کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔ کلیدی عہدوں سے ان کی چھانٹی ہوگی تو یہ سبب ازخود دور ہوگا۔ دوسری جانب موجودہ تنازع اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے تجویز دی گئی ہے کہ آسیہ مسیح کا ٹرائل دوبارہ کرلیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کسی بڑی پیچیدگی میں پڑنے کے بجائے لارجر بینچ کی تشکیل نئے ججوں یا دوسرے ججوں کے سامنے کیس پیش کرنے اور ٹرائل اور ہائی کورٹ لاہور کے ججوں کی طلبی سے یہ مسئلہ سلجھایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف سے بھی وکلا تیاری کریں۔ لیکن اصل مسئلہ آسیہ نہیں ہے پاکستان کے اہم سرکاری عہدوں پر رفتہ رفتہ قادیانی پہنچتے جارہے ہیں۔ جب سے انہیں آئینی سطح پر کافر قرار دیا گیا ہے وہ اپنی شناخت چھپا کر اہم اداروں اور اہم عہدوں پر پہنچ رہے ہیں۔ یہیں سے یہ لوگ شرانگیزی کرتے ہیں، لہٰذا پاکستان میں شرانگیزی کی بنیادوں کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ختم نبوت کانفرنس نے حکومت پاکستان کی جانب سے پورا مہینہ ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کے اعلان کو بھی مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک حکومت اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتی اس کی ان کانفرنسوں کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ حکومتی رٹ کے حوالے سے بھی کانفرنس میں سوال کیا گیا ہے کہ چناب نگر میں فورس بنا کر قادیانیوں نے حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ چناب نگر میں حکومتی رٹ قائم نہیں کی جاتی اور ختم نبوت کے لیے ناموس رسالت کے لیے دھرنے دینے والوں پر فوراً رٹ قائم کردی جاتی ہے۔ ایک اہم قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ قادیانی جہاد کے منکر ہیں اور یہ پاک فوج کا ماٹو بھی ہے۔ گویا یہ پاک فوج کے بھی دشمن ہیں۔ کرپشن، ترقی، معاشی استحکام، سی پیک، روزگار، 50 لاکھ مکانات، سڑکیں وغیرہ سب پاکستان سے مشروط ہیں اور یہ لابی آزاد اسلامی پاکستان کی دشمن ہے۔ لہٰذا اس لابی سے جان چھڑائی جائے پھر ساری ترقی کے ثمرات عوام کو ملیں گے۔ عمران خان کی حکومت اس حوالے سے خصوصاً شبہات کا شکار ہے، اسے اپنی پوزیشن بھی صاف کرنا چاہیے۔