جنگوں کے اسباب اور امکانات

412

 

 

دنیا میں اس وقت پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جو ایک شخص کی ہلاکت کے نتیجے میں دو ملکوں کے تنازعے سے شروع ہوئی۔ الفاظ کی توتکار باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی اور دیکھتے دیکھتے اس جنگ میں کئی طاقتور یورپی ممالک شامل ہوتے چلے گئے۔ ایک طرف روس، برطانیہ اور فرانس تھے تو دوسری طرف جرمنی، ہنگری، آسٹریا، اٹلی اور سربیا جیسے مشرقی یورپی ممالک تھے۔ بنیادی طور پر یہ یورپی اقوام کی جنگ تھی جس میں ایک مرحلے پر سلطنت عثمانیہ کو بھی کودنا پڑا اور یوں اس جنگ کی قیمت مسلمان دنیا کو کچھ اس انداز سے ادا کرنا پڑی کہ ان کی ایک عالمی طاقت سلطنت عثمانیہ زوال کا شکار ہوئی اور پھر مسلمانوں کے زوال کا یہ سفر کہیں رک نہ سکا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1918 تک لڑی گئی۔ اس میں کروڑوں افراد مہلک ہتھیاروں کے باعث ہلاک اور کروڑوں زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان میں دنیا بھر کے لوگ شامل تھے کیوں کہ اس وقت برطانیہ ایک بڑی عالمی طاقت تھا اور اس کی فتوحات اور کالونیوں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا۔ ہندوستان اور کئی دوسرے مسلمان ممالک بھی ان میں شامل تھے۔ یوں ہندوستان کے طول وعرض سے انگنت لوگوں نے برطانوی فوج کے حصے کے طور پر اس جنگ میں حصہ لیا۔ بہت سے مارے گئے، بہت سے لاپتا اور زخمی ہوگئے۔
اس سال فرانس نے جنگ بندی کے معاہدے کے سو سال پورے ہونے پر جشن منایا۔ جس میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، ترک صدر رجب طیب اردوان اور اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے شرکت کی۔ فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ دنیا کو امن کی ضرورت ہے جنگ کی نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کو جنگوں کے خاتمے کے لیے لڑی جانے والی جنگ کہا گیا تھا مگر اس کے بعد جنگوں کا سلسلہ ختم ہونے کے بجائے دراز ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم بھی لڑی گئی۔ جس میں انسانیت کے خلاف بھیانک جرائم روا رکھے گئے۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں نے سفاکی کی وہ داستان رقم کی جس پر انسانیت ہمیشہ شرمسار اور نادم رہے گی۔ دوسری جنگ عظیم بھی انسانیت کو جنگوں سے نہ بچا سکی اور دو ملکوں کے درمیان جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ ایک ملیشیا کو کچلنے کے نام پر افغانستان میں ناٹو اور امریکا نے مل کر وہ تباہی مچائی کہ جس کا کوئی حساب ابھی تک مرتب نہیں ہو سکا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں، ارجنٹینا اور برطانیہ کی جنگ، ویت نام کی جنگ، مشرق وسطیٰ کی جنگیں دو عالمی جنگوں کے بعد کا قصہ ہے۔
دنیا میں امن کے گیت گانے والوں میں وہ ملک سب سے آگے ہیں جو جنگوں کو شروع کرانے میں پس پردہ کردار ادا کرتے ہیں۔ ان جنگوں کے مقاصد میں کسی ملک کی تہذیب کو نیچا دکھانا، کسی ملک کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا، منشیات کی تجارت اور بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی مارکیٹ کو مضبوط اور وسیع کرنا شامل ہوتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی لیگ آف نیشنز کا تصور سامنے آیا تھا مگر یہ ڈھیلا ڈھالا اتحاد ناکام ہو ا کیوں کہ جنگ چاہنے والوں کو امن کی مالا جپنا تو قبول تھا مگر امن کی شمع کی لو کو بڑھانا قبول نہیں تھا۔ اس طرح جو جنگ جنگوں کے خاتمے کے نام پر لڑی گئی تھی وہ اس سے زیادہ خوفناک جنگ کی بنیاد بن گئی اور آج ایک سو سال گزرنے کے باوجود دنیا امن سے کوسوں دور ہے۔ انسانیت آج بھی اسلحہ ساز کمپنیوں اور منشیات فروش مافیا کے ہاتھوں لاچارگی اور بے بسی کی تصویر بنی ہے۔ جو لوگ جنگ کا کاروبار بھی کرتے ہیں وہی ’’سویٹ ڈش‘‘ کے طور پر ذائقہ بدلنے کے لیے امن کے منصوبے بھی چلاتے ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے جو امریکا اور ناٹو افغانستان اور عراق پر کروز میزائلوں کی بارش کیے ہوئے تھے وہی ساتھ ساتھ دنیا میں امن کے فروغ کے لیے این جی اوز قائم بھی کروا رہے تھے اور ان کو سیمیناروں اور مذاکروں کے لیے رقوم بھی مہیا کرتے تھے۔ گویا کہ یہاں وہی قاتل وہی منصف کا معاملہ تھا۔ ابوغرایب اور دشت لیلیٰ کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز ظلم کرنے والے بھی وہی تھے اور انسانی حقوق کے نام پر این جی اوز کو فروغ دینے والے بھی وہی تھے گویا کہ کسی میدان کو وہ اپنے کسی حقیقی حریف کے لیے کھلا چھوڑنا انہیں گوار ا نہیں تھا۔ تضادات سے بھری اس پالیسی نے جنگوں کے خطرات کو کم کرنے کے بجائے بڑھا ہی دیا ہے۔
جنوبی چین کے جزیروں میں امریکا اپنے ایک عالمی اقتصادی حریف ملک چین کی فوجوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔ یوکرائن میں امریکا اور روس آمنے سامنے رہ چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کی دو روایتی حریف ایٹمی طاقتیں چھوٹی موٹی جنگ میں مصروف ہیں۔ یہاں کشمیر کا تنازع دونوں ملکوں کے درمیان امن کے قیام میں مستقل رکاوٹ ہے مگر عالمی طاقتیں بے بسی اور مجبوری کا رونا رو کر اس تنازعے کو حل کرنے سے گریزاں ہیں اور یوں تنازعے کو مزید سنگین کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی تنازعات کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی جارہی ہیں۔ جب تک تنازعات کے خاتمے کے اسباب کا خاتمہ نہیں ہوتا جنگوں کے امکانا ت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جنگوں کے اسباب کا خاتمہ اس لیے ممکن نہیں کہ جنگ ایک عالمی کاروبار ہے۔