اسرائیلی طیارے کی آمد کا معاملہ پر اسرار گتھیوں میں الجھ گیا

441

 

 

۔24؍ اکتوبر کو راول پنڈی میں نور خان ایر بیس پر اسرائیل کے طیارے کی مبینہ آمد کا معاملہ اسی طرح پراسرار بن گیا ہے اور جوابات کا متقاضی ہے جس طرح 2 مئی 2011 کو امریکی سیلرز نیوی کے کمانڈوز نے پاکستان کی سرحد پار کر کے ایبٹ آباد میں فوجی چھاؤنی کے قریب اسامہ بن لادن کی حویلی پر حملے کا معاملہ پر اسرار بن گیا تھا اور جس کی تہ تک پہنچنے کے لیے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا اور سات سال گزرنے کے بعد بھی اس کمیشن کی رپورٹ شایع نہیں ہوئی ہے۔ اس غیر معمولی تاخیر کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی ہے۔ اس راز کا عقدہ نہیں کھل سکا ہے کہ فوجی چھاؤنی کے قریب امریکی سیلز کمانڈوز کو روکنے اور پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرنے سے روکنے میں ناکامی کا ذمے دار کون تھا؟ اتنے زور شور سے یہ حملہ ہوا جو کئی گھنٹے تک جاری رہا اس کے باوجود کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی۔ ایسی خاموشی کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
بہرحال گزشتہ ایک ہفتہ سے برابر وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزارت خارجہ کے ترجمان کی تردیدوں کے باوجود ان خبروں کا سلسلہ جاری ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو عمان کے خفیہ دورے کے موقع پر ایک اسرائیلی طیارہ راول پنڈی کے فوجی فضائی اڈے پر اترا تھا۔ ایک ہوا باز نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر مڈل ایسٹ آئی کو بتایا ہے کہ 24 اکتوبر کو اس نے اپنی پرواز کے دوران بز جیٹ کے ایک طیارہ کو نور خان ایر بیس پر اترتے دیکھا تھا۔ فضائی اڈے کے عملے کے تین اراکین نے اس ہوا باز کے بیان کی تصدیق کی ہے اور ان میں سے ایک رکن نے بتایا کہ اس نے ایک کار کو اس طیارے کے قریب جاتے دیکھا جس میں ایک وفد سوار ہوا۔ پھر کئی گھنٹوں کے بعد یہ وفد واپس آیا اور اس طیارے میں پرواز کر گیا۔ سب سے زیادہ پراسرار بات یہ ہے کہ یہ طیارہ پاکستان میں کس لیے اترا تھا کیوں کہ اگر یہ اسرائیلی طیارہ تھا تو پاکستان میں اس کو اجازت کس نے دی جب کہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں، پھر سوال یہ ہے کہ اس طیارے میں کون سوار تھا جس نے پاکستان میں چند گھنٹے قیام کیا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس طیارے میں آنے والے شخص نے پاکستان میں کس سے ملاقات کی۔ پاکستان میں اسرائیلی طیارے کی خبر 25؍ اکتوبر کو اسرائیلی اخبار حارث کے انگریزی ایڈیشن کے ایڈیٹر ایوی شراف کے ٹیوٹ کے بعد آگ کی طرح پھیل گئی تھی۔ ٹیوٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک نجی جیٹ طیارہ تل ابیب سے پرواز کر کے اسلام آباد گیا تھا جو دس گھنٹے بعد عمان کے راستے تل ابیب واپس آگیا۔ ایوی شراف کے اس ٹیوٹ کے بعد پاکستانی صحافیوں نے یہ قیاس آرائی کی کہ اسرائیلی وزیر اعظم عمان کے دورے سے پہلے اسلام آباد آئے تھے۔ حکومت پاکستان نے ان خبروں کی تردید کی ہے اور پاکستان کی شہری ہوا بازی کے محکمے نے بھی اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کی تردید کی ہے، وزیر اطلاعات فواد چودھری نے شراف کے ٹیوٹ160کو محض پروپیگنڈا قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ عرب امارات کا ایک وفد اسلام آباد آیا تھا اور یہ اس وفد کا طیارہ تھا۔ لیکن فواد چودھری امارات کے جس وفد کا ذکر کر رہے تھے وہ ایک روز بعد 26؍ اکتوبر کو آیا تھا۔ پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں تردید کی کہ اسرائیل کا کوئی طیارہ پاکستان میں نہیں اترا ہے۔
تیکنیکی لحاظ سے پاکستان کی تردید اس اعتبار سے صحیح ہے کہ بز جیٹ کا جو طیارہ 24؍ اکتوبر کو نور خان ایر بیس پر اترا تھا وہ اسرائیلی طیارہ نہیں تھا بلکہ یہ طیارہ آئل آف مین میں ملٹی پل اوورسیز لمیٹڈ کے نام سے رجسٹرڈ تھا۔ لیکن اس کا اصل مالک کون ہے یہ واضح نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ اسرائیلی طیارہ نہیں تھا۔ لیکن بز جیٹ کے اس طیارے میں کون اسلام آباد آیا تھا جو پاکستان میں چند گھنٹے رہ کر واپس چلا گیا یہ بات پراسرار ہے۔ فی الحال کوئی بھی اس کا عقدہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کوئی کمیشن مقرر کیا جائے تو وہ بھی اسی طرح سے بے سود ثابت ہوگا جس طرح سات سال پہلے امریکی کمانڈوز کے ایبٹ آباد پر حملے اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے راز پر سے پردے ہٹانے کے لیے جسٹس جاوید اقبال کا کمیشن یکسر بے سود ثابت ہوا ہے جس کی رپورٹ اب بھی حکومت کی تجوری میں مقفل ہے یہ بھی راز ہے کہ کون ہے جو اس رپورٹ کو ہوا نہیں لگنے دے رہا ہے۔