روسی سفیر کا بیان۔ تاریخ کا طمانچہ

601

روسی سفیر نے ماسکو میں اعلان کیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغان جنگ ہار چکے ہیں اور انہوں نے افغان امن عمل کے لیے شرائط اور طالبان کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مطالبات بھی پیش کیے ہیں۔ عالمی قوتوں کی غلط پالیسیوں اور ڈھٹائی کے نتیجے میں آج افغانستان میں روس اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں 1979ء میں افغانستان پر چڑھائی کے وقت سابقہ سوویت یونین تھی۔ سوویت یونین پر الزام تھا کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے افغانستان پھر پاکستان اور پھر گوادر کے راستے پر قبضہ کرے گا۔ سوویت یونین افغانستان پر قبضہ مکمل کرچکا تھا پاکستان کے راستے کے لیے یا تو مذاکرات ہوتے یا پھر سوویت افواج پاکستان میں بھی داخل ہو جاتیں۔ لیکن ان کی قسمت میں ایسا نہیں تھا اور پاکستان کی جانب سے مزاحمت کی سرپرستی کے نتیجے میں سپر پاور کے ٹکڑے ہوگئے۔ سوویت یونین کا مرکز روس ہی تھا اس کے رہنماؤں نے ایک عرصے کے بعد وہ پالیسی اختیار کی جو چین کی ہے۔ چین کسی بھی موقف کے حق میں جنگ نہیں کرتا۔ اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ ہمارا ہے ، تھا اور رہے گا۔ اس کے لیے انہوں نے جنگ نہیں لڑی موقف مضبوط رکھا، اب جبکہ چین گوادر کے راستے گرم پانی تک پہنچنے کا فیصلہ کرچکا ہے اس کے لیے کوئی جنگ نہیں لڑنی پڑی۔ روسی قیادت نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا اور ایک شراکت دار کے طور پر اس منصوبے میں شریک ہوگیا۔ لیکن ماسکو میں افغان امن کانفرنس کے بعد روسی سفیر برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے پریس کانفرنس میں امریکی حکومت اور اتحادیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ نیٹو اورامریکا نے مسئلہ حل کرنے کے بجائے اسے مزید بڑھایا ہے۔ اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیں یا تاریخ کا طمانچہ کہ افغانستان میں فوج کے ساتھ داخل ہونے اور 9سال طاقت کا استعمال کر کے ناکام جانے والا ملک افغانستان میں 17سال سے سر پھوڑنے والے امریکا سے کہہ رہا ہے کہ طالبان اتحادی فوج کے انخلا کی صورت میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ یہ ہے تاریخی طمانچہ کہ امریکا افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کا مطالبہ کرتا تھا اور اب ماسکو امریکا سے انخلا کا مطالبہ کررہا ہے اور ان ہی طالبان کی شرائط پیش کررہا ہے جن سے مار کھائی ہے۔ بہرحال ضمیر کابلوف کی پریس کانفرنس کا یہ اثر ضرور ہوا کہ افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات پررضامندی ظاہر کردی ہے۔ اس میں بھی وہی اکڑ ہے جو طالبان کی آمد سے قبل کے افغان حکمرانوں میں تھی کیوں کہ ان کی پشت پر سپر پاور سوویت یونین موجود تھی آج کی افغان حکومت کی پشت پر امریکا ہے۔ اس کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ طالبان اس عمل میں سنجیدہ ہیں تو افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں ۔ افغان فورسز منظم ہو چکی ہیں طالبان جنگ جاری رکھتے ہوئے کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس پر سر پیٹا جاسکتا ہے۔ یہ بات سوویت یونین کو سمجھائی گئی لیکن اچھی خاصی پٹائی کے بعد سمجھ میں آئی۔ اب امریکیوں کو سمجھ میں تو آگئی ہے لیکن اعترافِ شکست نہیں کررہے۔ افغان حکومت کو خود بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ جنگ کون لڑ رہا ہے۔ طاقت کا استعمال تو امریکا و نیٹو اتحادی کررہے ہیں۔ بہرحال امریکیوں کو ایک اور موقع ملا ہے کہ افغانستان سے رہی سہی عزت بچا کر نکل جائیں۔ افغان حکومت ہی سے طالبان کو مذاکرات کرنے دیں اور جو نتیجہ آتا ہے اسے تسلیم کریں۔ کم ازکم یہ بات تو امریکا روس اورا فغانستان کو اچھی طرح سمجھ میں آچکی ہے کہ طالبان ہی افغانستان کی وہ قوت ہیں جن کے بغیر یہاں کوئی حکومت اورنظام نہیں چل سکتا۔ جہاں تک افغان فورسز کے منظم ہونے کی بات ہے تو ان کا یہ حال ہے کہ شام کے بعد ان کی حکمرانی ہی نہیں رہتی۔ روزانہ کابل میں صدارتی محل کے قریب دھماکے ہو رہے ہیں کہاں ہے ان کا نظم و ضبط ، کیوں نہیں روک سکتے ان دھماکوں کو۔ اگر چہ دھماکے کرنا کوئی کارنامہ نہیں لیکن کوئی حکومت خود کو منظم اور طاقت ور ظاہر کررہی ہے تو اس میں اتنی صلاحیت تو ہونی چاہیے کہ دھماکوں کو روک سکے۔