ہر کہ آمد عمارت نو ساخت کے مصداق پنجاب کے عادل اعظم جسٹس انوار الحق نے پنجاب کے تمام جوڈیشل آفیسر کو عدالتی فیصلے آن لائن اپ لوڈ کرنے کا ہدایت نامہ جاری کردیا ہے۔ ماتحتوں کو ہدایات جاری کرنا اچھی بات ہے مگر احسن بات یہ ہے کہ ادارے کے سربراہ کو کارکردگی کا جائزہ بھی لینا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہدایت یا حکم پر کس حد تک عمل درآمد ہورہا ہے۔ مشاہدے اور مطالعے کے مطابق عدالت عظمیٰ اور اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے ایسی ہدایات اور احکامات بارہا جاری ہوتے ہیں اور پھر وقت کی دھول میں دفن ہوجاتے ہیں۔ بقول چیف جسٹس پاکستان بے نتیجہ رہے ہیں۔ بہاولپور سول کورٹ کے اندر داخل ہوں تو یہ تحریر استقبال کرتی ہے کہ بروقت انصاف کی فراہمی ہمارا نصب العین ہے مگر جب کسی مقدمے میں پیش ہونا پڑے تو عدالت کا نصب عین، عین غین ہوجاتا ہے۔ جج صاحبان ہر سائل کو مرزا کی صاحباں بنادیتے ہیں۔ سائلین انصاف مانگتے ہیں مگر جج صاحبان کو حکومت سے مراعات اور سہولتیں مانگنے سے فرصت نہیں ملتی سو، انصاف کی فراہمی خواب و خیال بن کر رہ گئی ہے۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ عدالتی فیصلے آن لائن اپ لوڈ کرنے سے سائلین کو کیا فائدہ ہوگا؟؟؟ فریقین تو سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی فیصلے سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ فیصلے آن لائن اپ لوڈ کرنے سے بہتر ہے کہ مقدمہ جس تاریخ کو دائر کیا جائے اسے آن لائن اپ لوڈ کردیا جائے تا کہ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہوتا رہے کہ عدالتیں کس حد تک فعال اور متحرک ہیں، حکومت بھی اس حقیقت سے واقف ہوتی رہے کہ وطن عزیز کے جج صاحبان جو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ کے نام پر لیتے ہیں اس کے عوض اور صلے میں قوم کو کس حد تک ریلیف دیتے ہیں اور کتنی تکلیف دیتے ہیں۔
مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ موجودہ نظام عدل بانجھ ہے قومی خزانے پر ایک ایسا بوجھ ہے جو ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں اہم کردار کا حامل ہے۔ فوج پر لعن طعن کرنے والے کبھی اس موضوع پر بھی سوچنے کی زحمت گوارا کریں۔ فوج تنخواہ لے کر صرف تن خواہی کا اہتمام نہیں کرتی، اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے ملک و قوم کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ جہاں تک ایوان اقتدار کی جانب مارچ کرنے کا تعلق ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ فوج عدلیہ کی طرح ازخود نوٹس نہیں لیتی، فوج جب بھی کسی حکومت کا دھڑن تختہ کرتی ہے، تخت نشینی کے خواہش مند سیاست دانوں کی لگائی آگ کی تپش کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس فعل ناپسندیدہ کی مرتکب ہوتی ہے البتہ اس اقدام کو قابل مذمت بنانے کی ذمے دار فوج ہی ہوتی ہے کیوں کہ اقتدار میں سیاست دانوں کو شامل کرنا ایسا ہی جیسے دشمن کو ہم راز بنانا۔ بدنصیبی یہی ہے کہ حکومت میں شامل سیاست دان ملک و قوم کی خدمت کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کرتے ہیں جو فوجی حکومت کو ناکام کرنے میں معاونت کا باعث بنتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی حکومتوں نے مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کی بہت کوشش کی مگر فوج اس لاحاصل مشق سے اُکتا چکی ہے سو، ان کو مدت پوری کرنے کے پورے مواقعے فراہم کیے۔ حتیٰ کہ اینٹ سے اینٹ بجانے والوں سے بھی درگزر کیا اور کبھی جذبہ بشریت نے اُکسایا بھی تو صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کو فوج لائی ہے۔ غالباً قائد اعظم نے کہا تھا کہ عوام کی رائے کبھی غلط نہیں ہوتی سو، اس فرمان کی روشنی میں یہ تسلیم کرنے میں کوئی مزائقہ نہیں کہ عمران خان آئے نہیں لائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان ناکام ہوگئے تو کیا ہوگا؟؟۔ یہ بات طے ہے کہ اب مارشل لا نہیں لگتا مگر ہمیں یہ لگتا ہے کہ قومی حکومت کی تشکیل کے بارے میں غور و غوض ہورہا ہے۔ فی الحال نوجوان شاعر نوید صادق کا یہ شعر گنگنایا جاسکتا ہے۔
طے ہو نہ ہو، یہ رنج سفر کھینچتے رہو
یوں بھی نظر میں اور کوئی راستہ نہیں