پریس کلب اور صحافیوں نے کسی کا کیا بگاڑا؟ 

297

کراچی پریس کلب (کے پی سی) میں جمعرات 8 نومبر کی رات جو کچھ ہوا اسے سمجھنے کی کوشش ہی کی جارہی تھی کہ جمعہ 9 نومبر کی رات کلب کی ہر دلعزیز شخصیت سینئر صحافی نصراللہ خان چودھری کو ان کی رہائش گاہ کے دروازے سے ’’نامعلوم افراد اغواء کرکے لے گئے‘‘۔ یہ بات پوری ذمے داری سے اس لیے کہی جارہی ہے کہ نصراللہ کو لے جانے والوں نے نہ اپنی شناخت کرائی اور نہ ہی کسی کو ان سے شناخت پوچھنے کا موقع مل سکا۔ گزشتہ روز ایک مضحکہ خیز الزام لگا کر ان کی گرفتاری ظاہر کر دی گئی۔ یہ شاید اس لیے کہا جارہا ہے کہ جمعرات کی رات کراچی پریس کلب میں جن چند افراد نے انتہائی پرسرار انداز میں داخل ہوکر مختلف مقامات کی ویڈیوز و تصاویر بنائی تھیں ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ نئے تھے ان کو پریس کلب کی عمارت سے واقفیت نہیں تھی۔ اگر انہیں عمارت کے بارے ہی میں معلوم ہی نہیں تھا تو پھر سوچنے کی بات تھی کہ وہ کیوں کر یہاں داخل ہوگئے؟ بہرحال یہ سچ ہے کہ اراکین نے ان کی شناخت کے حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے کوئی جواب دینے سے گریز کیا۔
یہ کون لوگ تھے فوری پتا نہیں چل سکا۔ بعد میں ان کی شناخت سی ٹی ڈی اہلکار کی حیثیت سے ہوئی کلب کی تقریباً 60 سالہ تاریخ میں ایساپہلی بار ہوا۔ کراچی پریس کلب ان اہم عمارتوں میں شامل ہے جہاں داخلے کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں۔ کراچی پریس کلب ملک کا پہلا ’’ایوان صحافت‘‘ ہے۔ اسے 1958 میں اس وقت کے چند صحافیوں نے قائم کیا تھا۔ کراچی پریس کلب اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے آمریت کے خلاف جدو جہد اور جمہوریت کے حق میں تحاریک بھی چلائیں گئیں۔ یہ شاید ملک کا واحد ادارہ ہے جہاں قیام کے بعد سے ہر سال انتخابات کرائے جاتے ہیں تاکہ کلب کا انتظام چلانے کے لیے اراکین اپنے پسندیدہ ساتھی ارکان پر مشتمل ٹیم تشکیل دے سکیں۔
مگر کراچی پریس کلب میں جمعرات کو سیکورٹی اداروں کے زبردستی داخل ہونے کے بعد اہلکاروں کی پرسرار سرگرمی بعدازاں جمعہ کی رات کلب کے ہر دلعزیز سینئر رکن اور ممتاز صحافی نصراللہ خان چودھری کے اغواء کے واقعات نے مملکت کے چوتھے ستون کو ہلاکر ہی تو رکھ دیا ہے۔ ملک بھر کے صحافی جو ہمیشہ ہی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ان دنوں یکے بعد دیگر واقعات پر شدید احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان دو واقعات نے تحریک انصاف کی حکومت میں ملک میں جاری ناانصافیوں اور لاقانونیت کو اجاگر کر دیا ہے۔ جبکہ اس بات کا بھی اظہار کردیا ہے کہ یہاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے فعال ہونے کے باوجود لاقانونیت بھی موجود ہے۔ خیال تھا کہ لاپتا افراد کا پتا لگانے کے لیے قائم کمیشن کے دوران کم ازکم مزید افراد کے پرسرار طور پر غائب ہونے کا سلسلہ بند ہوجائے گا مگر صحافی نصراللہ چودھری کی پرسرار گمشدگی یا نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغواء کے واقعہ سے ثابت ہوگیا کہ یہ سب خوش فہمیاں ہی تھیں۔ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے ملک میں لاقانونیت ختم کرنے کے دعوے تھے۔ غیر قانونی کارروائیاں تو اس قدر بڑھ گئیں ہیں کہ کراچی پریس کلب کی تاریخی عمارت اور صحافیوں تک کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی سرکاری ادارے کو اپنی تحقیقات کے لیے کسی کو حراست میں لینے کی ضرورت تھی تو اسے خود کیوں نہیں بلایا جاتا یا اس سے متعلق لوگوں یا اداروں سے کیوں مدد نہیں لی جاتی۔ اگر سارے عمل کو خفیہ ہی رکھنا ہوتا ہے تو مروجہ معروف اصولوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیکورٹی ادارے اور اس کی مدد گار ایجنسیاں اپنے قوانین سے نابلد ہیں یا قوانین کو بھول چکی ہیں۔ کراچی پریس کلب کے تقریباً 18 سو صحافی اراکین شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی بھی انسانوں سے ہوتی ہے یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے مگر ہدف وار کارروائی غلطی نہیں ہوتی اور یہ بات سب جانتے ہیں۔
پریس کلب میں داخل ہوکر اور صحافی نصراللہ چودھری کو حراست میں رکھ کر کس کو ہراساں کیا جارہا ہے یا کسی کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ اس کی وضاحت متعلقہ ادارے خود ہی کرسکتے ہیں۔ عامل صحافی تو کسی صورت میں خوفزدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی کبھی ہوں گے۔ قلم کے سپاہی تو ملک کے نظام کی بہتری، لاقانونیت کے خلاف اور عوام کو ان کے حقوق دلانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کراچی پریس کلب کی تاریخ تو اس بات کی گواہ ہے کہ اس نے کبھی بھی آمریت کی پزیرائی نہیں کی بلکہ جمہوریت کے فروغ کے لیے کلب کے مکین ہمیشہ ہی کوشاں رہے۔ کراچی پریس کلب کے سیکرٹری مقصود یوسفی نے مذکورہ واقعات پر کہا ہے کہ جان بوجھ کر پریس کلب پر دھاوا بولنے کا مقصد صحافیوں کو ہراساں کرنا اور کلب کے تقدس کو پامال کرنے کے سوا کچھ نہیں اسی طرح نصراللہ خان کی گرفتاری بلاجواز ہے اس لیے کسی جانب سے وضاحت نہیں کی جارہی۔ مقصود یوسفی نے مطالبہ کیا کہ نصراللہ چودھری کو بلا تاخیر رہا کیا جائے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر سہیل افضل خان نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک منظم سازش کے تحت صحافیوں کو اشتعال دلانے کی سازش کی جارہی ہے۔ پریس کلب پر سرکاری اہلکاروں کا گھسنا اور اس کے دوسرے روز صحافی نصراللہ چودھری کو بلاجواز گرفتار کرنا صحافت پر براہ راست حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ نصراللہ چودھری کو فوری رہا نہیں کیا گیا ملک بھر صحافی کے صحافی احتجاج کا سلسلہ بڑھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ کلب کے صدر ملک احمد خان کے مطابق کراچی پریس کلب کی 60 سالہ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں کسی سرکاری ایجنسی کے افراد اس طرح کلب میں داخل ہوئے ہوں۔ 1958 میں قائم ہونے کے بعد سے آج تک پریس کلب کے سامنے کئی احتجاج ہوئے ہیں اور کئی بڑے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم نے کئی آمریتیں بھگتائی ہیں اسی پریس کلب سے کام کرکے یا باہر احتجاج کرکے۔ لیکن کبھی بھی پولیس یا مسلح افراد یہاں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ اس جگہ کا تقدس اپنی جگہ ہے جو ہم کسی کو پامال نہیں کرنے دے سکتے۔ پریس کلب جس عمارت میں قائم ہے وہ 1882ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ کراچی پریس کلب میں سرکاری اہلکاروں کے زبردستی داخل ہونے پر ممتاز صحافی و شاعر اور رکن کلب عثمان جامعی نے اپنے رد عمل کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ
’’کیا ڈھونڈنے آئے تھے یہ سادہ لباس لوگ
شاید کہ صداقت کا قلم ڈھونڈ رہے تھے
وہ لفظ کی حرمت کی قسم ڈھونڈ رہے تھے
یا کمروں میں جرات کا علم ڈھونڈ رہے تھے
آزادی اظہار سے الفت کی مچی ڈھونڈ
کہ سچی صحافت کا بھرم ڈھونڈ رہے تھے‘‘