گیارہ نومبر کو گیارہ بجے صبح پیرس اور لندن میں پہلی عالم گیر جنگ کے خاتمے کے ایک سو سال پورے ہونے پر خاص تقریبات کا یوں اہتمام کیا گیا جیسے کہ جشن منایا جا رہا ہے۔ پیرس میں جہاں صلح نامے پر دستخط ہوئے تھے، ساٹھ ملکوں کے سربراہوں اور اہم شخصیات نے آرچ ڈی ٹرایمف پر ان جانے فوجیوں کی یادگار پر خراج عقیدت پیش کیا اور جنگ میں جان دینے والوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اسی طرح لندن میں جنگوں میں جان دینے والوں کی یاد گار سینیٹاف میں ولی عہد شہزادہ چارلس نے ملکہ کی طرف کاغذ کے سرخ پھول Poppies چڑھائے۔ اس موقع پر جنگ میں ہلاک ہونے والوں اور ان کے شہروں کی تباہی کے ذکر کے بجائے جنگوں کے کارناموں کا ذکر نمایاں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ایک منظم طریقہ سے پہلی عالم گیر جنگ کی یاد کے دریا کا رخ موڑ دیا گیا ہے بالکل اسی طرح جیسے پہلی عالم گیر جنگ 1914 میں، اس وقت اچانک بھڑکی جب سربیا کے ایک باغی نے آسٹریا۔ ہنگری کی سلطنت کے ولی عہد آرچ ڈیوک کو قتل کیا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس واقعے نے یورپ میں ایک جنونی فضا پیدا کر دی۔ جنگ کا کوئی امکان اور خدشہ نہیں تھا لیکن فی الفور یورپ میں ایک دوسرے کے خلاف فوجی محاذ قائم ہوگئے۔ ایک طرف روس، بیلجیم، فرانس، سربیا اور برطانیہ نے، آسٹریا، ہنگری اور جرمنی کے خلاف محاذ قائم کیا اور آناً فاناً پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا جو چار سال تک جاری رہی۔ اس دوران نوے لاکھ فوجی اور ایک کروڑ شہری ہلاک ہوئے، چار سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں جن کا براہ راست جنگ کی شروعات سے تعلق نہیں تھا، ان میں سلطنت عثمانیہ بھی شامل تھی جس پر قبضہ کرنے کے لیے مغربی دنیا کی ایک عرصہ سے نظریں تھیں۔ جنگ ہی کے دوران 1916 میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان خفیہ سمجھوتا طے پایا جسے سایک، پیکوٹ سمجھوتا کہا جاتا ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت دونوں ملکوں نے جنوب مغربی ایشیا میں اپنے اپنے علاقے تقسیم کر لیے تھے۔ اس سمجھوتے کے تحت برطانیہ کو بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان کا ساحلی علاقہ دیا گیا جس میں اردن، جنوبی عراق، فلسطین اور حیفہ کی بندرگاہ شامل تھی۔ اس بندر بانٹ میں فرانس کو جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان دیا گیا۔ روس کو استنبول اور آرمینیا حوالے کیا گیا۔
اس وقت جب جنگ کے دوران مسلم سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے جارہے تھے، اس وقت لاکھوں مسلم فوجی برطانیہ کی فوج کے ساتھ مل کر برطانیہ کا دفاع کر رہے تھے۔ برطانوی حکومت اعتراف کرتی ہے کہ پہلی جنگ میں برطانیہ کا دفاع کرتے ہوئے چار لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانیں دیں۔
پہلی عالم گیر جنگ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ جنگوں کے خاتمے کی جنگ عظیم ہے لیکن اتنی بھاری ہلاکتوں اور وسیع تباہی کے پیش نظر یہ دعویٰ محض خیالی ثابت ہوا بلکہ حقیقت میں پہلی جنگ عظیم ایک تمہید ثابت ہوئی جس کے بعد دنیا میں خونریز اور تباہ کن جنگوں کا ایسا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا جو اب بھی جاری ہے۔ 1917 کی روسی خانہ جنگی، 1919 کی آئرلینڈ کی آزادی کی جنگ اور اس کے بعد خانہ جنگی اور مختلف ملکوں کے درمیان مسلح تنازعات کے علاوہ دس کے قریب بڑی ہولناک جنگیں ہوئیں جن میں سر فہرست دوسری عالم گیر جنگ ہے جو پہلی جنگ کے بیس سال بعد ہی دنیا میں ہلاکتوں اور تباہی کے ساتھ ایک عذاب ثابت ہوئی۔ دوسری عالم گیر جنگ میں پہلی جنگ سے کہیں زیادہ ہلاکتیں اور تباہی ہوئی۔ اس سات سالہ جنگ میں گیارہ کروڑ فوجی اور شہری ہلاک ہوئے یہ تعداد 1940 میں دنیا کی کُل آبادی کا تین فی صد حصہ تھی۔ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جو بڑی جنگیں تباہی کا باعث بنی ہیں ان میں ویت نام کی جنگ، کوریا کی جنگ، سربیا کی جنگ، عراق کی جنگ اور افغانستان کی جنگ جو سولہ سال بعد اب بھی جاری ہے۔
اس دور میں ایسا لگتا ہے کہ جنگوں سے نجات بڑی مشکل ہے کیوں کہ اب جنگیں بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں اور کثیر القومی کمپنیوں کے کاروبار اور اقتصادی مفادات کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہیں۔ مغربی ملکوں میں اور خاص طور پر امریکا میں بڑ ے بڑے سرمایہ کار اور کمپنیاں منظم طریقے سے ان جماعتوں اور سیاست دانوں کی اس مقصد سے مالی اعانت کرتی ہیں اور انہیں برسر اقتدار لانے کی حکمت عملی تیار کرتی ہیں جو ان کے مالی اور اقتصادی مفادات کی خاطر ایسے حالات پیدا کریں کہ جن میں160جنگ نا گزیر ہو جائے اور ان کمپنیوں کو بڑے بڑے دفاعی ٹھیکے ملیں نہ صرف اسلحہ کی فراہمی کے بلکہ فوجوں کی نقل وحرکت میں سہولت اور فوجوں کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے ان کی خدمات طلب کی جائیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی مفاد پرست قوتیں پہلے جنگوں کی آگ بھڑکاتی ہیں اور پھر دھوم دھام سے ان کا عرس مناتی ہیں۔ جہاں یہ قوتیں اپنے سیاسی، تجارتی اور فوجی مقاصد کے حصول کے لیے جنگیں بھڑکاتی ہیں وہاں اسی کے ساتھ ان کی اسلحہ ساز صنعتوں160کے گہرے مفاد وابستہ ہیں۔ دنیا کے چھ بڑے ممالک اس وقت اسلحہ کی تجارت میں پیش پیش ہیں۔ امریکا، روس، جرمنی، فرانس۔ برطانیہ اور چین۔ یہ ممالک کل ملا کر ہر سال 22 ارب 70 کروڑ ڈاکر کی مالیت کا اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ ان میں اب اسرائیل بھی شامل ہوگیا ہے جو ایک ارب چالیس کی مالیت کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ جب دنیا میں اسلحہ کی اتنی فراوانی ہوگی تو جنگوں کی آگ روکنا محال ہوگا۔ پھر ان ملکوں میں اسلحہ کی تجارت میں اس قدر مقابلہ ہے کہ اس میں تمام اصول اور انسانی ہمدردیاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یمن میں اس وقت سعودی عرب کے اتحاد کی جو تباہ کن بمباری ہو رہی ہے اس کے سلسلے میں جب برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن سے مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت سعودی عرب پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسلحہ کی فروخت روک دے تو بورس جانسن کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت نہ کیا تو سعودی عرب دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدے گا سعودی عرب پر دباؤ تو کیا پڑے گا برطانیہ کے اسلحہ ساز کارخانوں میں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ بھی ایک سو گیارہ ارب ڈالر کی مالیت کے اسلحہ کے سودے کی خاطر، سعودی صحافی جمال خاشق جی کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں سعودی عرب کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
غرض امریکا، برطانیہ اور فرانس، اپنے اسلحہ کے سودوں کو تمام اصولوں اور نظریات پر فوقیت دیتے ہیں۔ ان حالات میں کسی صورت میں جنگوں کی روک تھام کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یوں لگتا ہے کہ اسلحہ کی تجارت جاری رہے گی اور ان کی بنیاد پر جنگوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ پیرس اور لندن میں پہلی عالم گیر جنگ کے صلح نامہ کے ایک سو سال گزرنے پر ایسے جشن دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مغربی ممالک جنگوں میں جانیں دینے والوں کے مجاور اور خون کے تاجر نظر آتے ہیں۔