ناصر حسنی
اس بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں جمہوریت خوش اقبال ہوگی وہاں عوام خوش حال ہوں گے۔ بھارت جمہوری اعتبار سے ایک خوش بخت ملک ہے مگر وہاں خوش حالی کم، بدحالی زیادہ ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بدحالی اس کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے اور پڑوسی کو پڑوسی سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان جہاں جاتے ہیں پاکستانی سیاست دانوں کی بدکرداری کا رونا روتے ہیں، ان کے بیانیے سے لگتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اپوزیشن کا لبادہ نہیں اُتارا، بس دوسروں کے کپڑے اُتارنے میں لگے ہوئے ہیں سو، لازم ہے کہ دوسروں کی خامیاں اور کوتاہیاں بیان کرنے کے بجائے اپنا بیانیہ بدلیں، کاش! وہ اس حقیقت کا ادراک کرسکتے کہ قدرت نے انہیں ایک ایسی سیاسی شخصیت بننے کا موقع دیا ہے جو قوم کے دلوں میں تاقیامت زندہ رہ سکتی ہے۔ اپنے مخالفین کو اڈیالہ جیل کی سیر کرانے کے بجائے جمہوری اور انتظامی اداروں کو مضبوط کریں کہ ملکی استحکام اور قومی خوشی اداروں کی مضبوط سے مشروط ہوتی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے دشت سیاست میں جمہوریت کو آبلہ پائی کے سوا کچھ نہیں ملتا اور جب کبھی اس کا گزر کسی نخلستان سے ہوتا ہے تو اس کے سر کی چادر بھی اُتر جاتی ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے سر سے آئے دن چادر نوچ لی جاتی ہے اور جمہوریت بی بی سیاست دانوں کے سالم و ثابت ہاتھوں کو دیکھ کر خون کے آنسو بہانے لگتی ہے اور یہ حادثہ بلکہ سانحہ ہمارے ہاں بارہا رونما ہوچکا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ وطن عزیز میں حکمرانی لوٹ کا مال بن گئی ہے، کبھی طاقت کے ذریعے اور کبھی سازش کے ذریعے ایوان اقتدار پر قبضہ جمالیا جاتا ہے۔
ہمارے بعض قارئین نے وزیراعظم کے مثبت اقدام پر لکھنے پر اصرار کیا ہے، ہم حیران ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی طرز حکمرانی کے بارے میں کیا لکھیں یہ تو سبھی جانتے ہیں ان کی حکومت کے ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے ہیں مگر انہوں نے مخالفین کو کاٹنا شروع کردیا۔ ویسے کاٹنا بہت چھوٹا لفظ ہے اور شائستگی ہمیں بڑا لفظ ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ بادشاہ کسی ریاست کا ہو یا جنگل کا، بادشاہ، بادشاہ ہی ہوتا ہے مگر جب کوئی مقتدر شخص بادشاہ گر بنتا ہے تو وہ بادشاہ گری کم اور بازی گری زیادہ دکھاتا ہے اور جہاں ایک سے زیادہ بادشاہ گر ہوں وہاں جنگل کا بادشاہ بھی سرکس کا شیر بن جاتا ہے۔ پشتو زبان کا ایک محاورہ ہے کہ گھی کتنا بھی زیادہ ہو اسے ’’چاڑ چوبے‘‘ میں نہیں رکھا جاسکتا۔ مطلب یہ کہ پانی کی جگہ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے خیال میں یہ ایک خوب صورت بات ہے اور اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اختیار ملنے کے بعد آدمی کو صاحب اختیار ہونا چاہیے، بے اختیار ہونا اختیارات کو داغ دار کرنے کے مترادف ہے۔ آپے سے باہر ہونا کبھی قابل تحسین عمل نہیں ٹھیرا۔ میاں نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کا بیانیہ ’’رٹا‘‘ محسوس ہونے لگا ہے، عوامی اور سماجی طبقے بوریت محسوس کرنے لگے ہیں۔ عوامی مسائل سے گریز پائی عمران خان کو غیر مقبول کررہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے درباری سابق حکومتوں کے عوامی بہبود اور بھلائی کے کاموں کو ذاتی شہرت اور کمیشن کے حصول کا ذریعہ قرار دے کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ عوام اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ جمہوریت اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عوام اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ عمران خان کی ٹیم میں اکثر لوگ تو دامن اور چولی سے بھی محروم ہیں۔