سندھ فوڈ اتھارٹی کو بھی سیل کریں

423

کراچی کے ایک معروف ریستوران ایریزونا پر سندھ فوڈ اتھارٹی کے چھاپے میں 70کلو سڑا ہوا گوشت برآمد ہوا جو 2014ء میں منگوایا گیا تھا اور اس کے استعمال کی تاریخ 2015ء میں ختم ہو چکی تھی۔ پھر بھی یہ گوشت ریستوران کے خفیہ گودام میں موجودتھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سڑا ہوا گوشت استعمال بھی ہو رہا تھا۔ گوشت کے علاوہ ایسے مشروبات بھی برآمد ہوئے جن کے استعمال کی تاریخ گزر چکی تھی۔ یہ چھاپے اور پکڑ دھکڑ دو بچوں کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئی۔ یہ سانحہ نہ ہوتا تو سارے معاملات جوں کے توں چلتے رہتے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ سرکاری ادارے سندھ فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس ریستوران کو چھ ماہ پہلے گزشتہ مئی کو ایک نوٹس دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟ اس کا کوئی جواب نہیں ۔ کیا فوڈ اتھارٹی کے حکام نوٹس جاری کر کے بھنگ پی کر سو گئے تھے؟ کیا انہوں نے جا کر جائزہ لیا کہ ان کے نوٹس پر کیا عمل ہوا۔ ایسا ہوتا تو دو بچے اپنی جان سے نہ جاتے۔ تو کیوں نہ سندھ فوڈ اتھارٹی کے ذمے دار افسران کو گرفتار کر کے ان پر دو بچوں کی ہلاکت کا مقدمہ چلایا جائے۔ سندھ فوڈ اتھارٹی سرکاری ادارہ ہے جس کے اخراجات سرکاری خزانے، دوسرے لفظوں میں عوام کی جیب سے ادا کیے جاتے ہیں۔ اگر اس کا کام صرف تنخواہیں وصول کرنا اور عیش کرنا ہے تو کیوں نہ اس ادارے کو بند ہی کردیا جائے، کچھ پیسے ہی بچیں گے۔ یہ کام بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے بااثر افراد اور حکمران نہ ہوں ۔ اگر ریستوران سیل ہوسکتا ہے تو اس نام نہاد فوڈ اتھارٹی کو بھی فوری طور پر سیل کردیا جائے۔ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کا دائرہ کار پورے سندھ میں ہے۔ مگر جب کراچی جیسے شہر میں اس کی کارکردگی صفر ہے تو دوسرے شہروں میں کیا ہوگی۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ کہیں چھاپے مارنے کی دھمکی دے کر بھتا وصول کرلیا جاتا ہو اور یہ کوئی عجیب بات بھی نہ ہوگی کہ پورے ملک میں یہ عام طریقہ واردات ہے۔ اب سندھ حکومت نے سندھ فوڈ اتھارٹی کی نگرانی کے لیے 3 ارکان اسمبلی کو نامزد کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ کام فوڈ اتھارٹی کو مزید فعال بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ گویا حکومت سندھ کو اب بھی گمان ہے کہ یہ ادارہ فعال تھا جس کی فعالیت بڑھائی جارہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق مذکورہ ریستوران کی انتظامیہ نے از خود سیل بھی توڑ دی۔ تحقیقات کے دوران میں اپنے دوسرے گودام کی موجودگی کو چھپانے کی کوشش بھی کی گئی۔ سندھ فوڈ اتھارٹی نے اس واقعے کے بعد کتنے ریستورانوں کا جائزہ لیا، ان کے کچن اور گودام چیک کیے، اس کی کوئی اطلاع نہیں ۔ تفتیشی افسر کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ جس دن بچوں کی ہلاکت ہوئی اس دن 300افراد نے اس ریستوران سے کھانا کھایا لیکن کوئی بیمار تک نہیں ہوا۔ یعنی زہر خورانی کا واقعہ کہیں اور پیش آیا، ریستوران کا کوئی قصورنہیں۔ لیکن یہ جو تین سال سے سڑتا ہوا گوشت برآمد ہوا ہے اس کا کیا جواز پیش کیا جائے گا؟؟