مغرب کا فاشزم صرف ہٹلر، جارج بش، ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹونی بلیئر تک محدود نہیں بلکہ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما بھی مغرب کے فاشزم کی علامت ہیں۔ یقین نہ آئے تو مندرجہ ذیل خبر ملاحظہ فرمائیں۔ خبر کے مطابق ’’وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے آسیہ بی بی کی بریت کے معاملے پر تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے بند ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ جمائما نے علامہ خادم حسین رضوی کے بند ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ اچھا ہوا ہے۔ انہوں نے اس کام پر ٹوئٹر کو مبارک باد دی‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 6 نومبر 2018)
انگریزی اظہار کے ایک سانچے کے مطابق جمائما گوٹھ اسمتھ دودھ اور شہد سے بنی ہوئی ہیں مگر اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ آتے ہی ان کا دودھ پھٹ گیا اور شہد زہر آلود ہوگیا۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔ خادم حسین رضوی کی سیاست اور طرزِ گفتگو پر نکتہ چینی ہوسکتی ہے۔ اس پر تنقید کی جاسکتی ہے، یہاں تک کہ خادم حسین رضوی کی مذمت بھی کی جاسکتی ہے مگر ان کی آزادی اظہار سلب نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے کہ آزادی اظہار مغرب کا ایک بنیادی تصور بلکہ بنیادی عقیدہ ہے مگر جمائما گولڈ اسمتھ نے خادم حسین رضوی کی زبان بندی پر بھنگڑا ڈال دیا ہے اور ٹوئٹر کو مبارک باد دی ہے کہ اس نے خادم حسین رضوی کی زبان پر تالا ڈال کر بہت اچھا کام کیا ہے۔ یہ ہے مغرب کا فاشزم۔ یہ ہے مغرب کا اصل چہرہ۔
مغرب کے تصور آزادی کے تحت دنیا کی کوئی چیز مقدس نہیں۔ دنیا کی کوئی چیز تنقید سے بالاتر نہیں۔ یہاں تک کہ خدا اور اس کے رسول بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب 1095 سے رسول اکرمؐ کی توہین کررہا ہے اور اس توہین کو وہ اپنا حق سمجھتا ہے لیکن مغرب صرف قول کی سطح پر آزاد نہیں مغرب عمل کی سطح پر بھی آزاد ہے۔ چناں چہ مغرب نے صلیبی جنگ ایجاد کی اور اسے مسلمانوں پر مسلط کردیا۔ یہ جنگ اتنی طویل ہوئی کہ دو سو سال تک جاری رہی۔ مغرب نے 18 ویں صدی میں نوآبادیاتی فکر کے تحت پوری امت مسلمہ پر قبضہ کرلیا۔ مغرب نے 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں ایجاد کیں اور 10 کروڑ سے زیادہ انسانوں کو مار ڈالا۔ مغرب نے خطرناک ہتھیاروں کے جھوٹ کی آڑ میں عراق پر حملہ کیا اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ خود امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کے مطابق عراق کے خلاف امریکا کی جارحیت سے پانچ سال میں 6 لاکھ عراقی ہلاک ہوئے۔ امریکا نے ایک غیر ثابت شدہ الزام کے تحت افغانستان پر یلغار کی اور 17 برسوں میں افغانستان میں ایک لاکھ بے گناہ افغانیوں کو ہلاک کردیا۔ امریکا کے ڈرونز نے پاکستان میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا مگر مغرب نے اپنے ان بھیانک انسانیت سوز جرائم پر نہ کبھی معافی مانگی اور نہ کسی کو احتجاج کا حق دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی مغرب مہذب ہے۔
’’علم اور شعور‘‘ کی علامت ہے۔ ’’انسان پرست‘‘ ہے۔ ’’تہذیب کا مینار‘‘ ہے۔ ’’عقل‘‘ کی علامت ہے۔
بدقسمتی سے مغرب کے سیاست دان ہی نہیں مغرب کے مفکرین اور دانش ور بھی فاشسٹ اور نسل پرست ہیں۔ کپلنگ مغرب کا نوبل انعام یافتہ تھا مگر اس کے فاشزم کا یہ عالم ہے کہ اس نے اپنی ایک نظم میں پورے مشرق کو ’’آدھا شیطان اور آدھا بچہ‘‘ قرار دیا ہے۔ کپلنگ نے مشرق کو آدھا شیطان قرار دے کر آدھے مشرق پر خط تیسخ پھیر دیا۔ مگر باقی ماندہ آدھے مشرق کو اس نے بچہ قرار دے کر ثابت کرنا چاہا کہ بیچارے مشرق کا ارتقا ہی نہیں ہوسکا اور وہ بچے کا بچہ رہ گیا۔
رالز جدید مغرب کے بڑے سیاسی مفکرین میں سے ایک ہے۔ اس کا نظریہ عدل یا Theory of Justice مشہور زمانہ ہے۔ مگر اس کے ’’حقیقی انصاف‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اس نے لبرل سرمایہ داری کے مفکروں کو کیڑے مکوڑے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کیڑے مکوڑے اس قابل ہیں کہ انہیں کچل دیا جائے۔ مغرب کے ایک اور دانش ور ڈربن نے صاف کہا ہے کہ میں کسی ایسے شخص کے ساتھ بحث نہیں کرسکتا جو لبرل نہ ہو۔ ڈربن کے بقول غیر لبرل شخص سے بحث کرنے کے بجائے اسے گولی مار دینی چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب کے دانشور رسول اکرمؐ کی توہین کی آزادی طلب کرتے ہیں اور خود سرمایہ داری اور لبرل ازم کے ناقدوں کو اس لائق سمجھتے ہیں کہ انہیں گولی مار دی جائے۔ جمائما گولڈ اسمتھ نے خادم حسین رضوی کو گولی تو نہیں ماری مگر انہوں نے خادم حسین رضوی کو آزادی اظہار مہیا کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ ان کی نظر میں خادم حسین رضوی کیڑے مکوڑے کی طرح ہیں۔ چناں چہ انہیں اور ان کی آزادی اظہار کو ٹوئٹر پر کچل دیا گیا ہے۔ یہ کام اس مغرب نے کیا جس کے پاس لاکھوں ریڈیو اسٹیشن، لاکھوں ٹی وی چینلز اور لاکھوں اخبارات و جرائد ہیں۔ مگر وہ ایک خادم حسین رضوی کو ٹوئٹر پر موجود رہنے کی اجازت نہیں دے رہا۔
زیر بحث موضوع سے ہمیں یاد آیا کہ عراق پر حملے کے وقت پورا مغرب الجزیرہ ٹی وی سے سخت ناراض تھا۔ الجزیرہ کا جرم یہ تھا کہ عراق کی جنگ کا ’’دوسرا زاویہ‘‘ پیش کررہا تھا۔ وہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو رپورٹ کررہا تھا۔ چناں چہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے طیاروں نے کئی مقامات پر الجزیرہ کے دفاتر پر حملے کرائے۔ حالاں کہ الجزیرہ کے بارے میں اب تک کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کی پشت پر کون موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف صرف الجزیرہ تھا اور دوسری طرف مغرب کے ہزاروں چینلز لیکن مغرب نے الجزیرہ کو آزادی استعمال کرنے کی سزا دی۔
نئی نسل کے لیے یہ قدرے ایک پرانی کہانی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں بی سی سی آئی کے نام سے ایک بینک ہوا کرتا تھا۔ اس بینک کے مالک عابدی صاحب تھے۔ بی سی سی آئی کوئی اسلامی بینک نہیں تھا بلکہ وہ مغرب کے بینکوں کی طرح سودی کاروبار کرتا تھا۔ مگر بی سی سی آئی کا جرم یہ تھا کہ اس نے بڑے بڑے مغربی بینکوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ چناں چہ پوری مغربی دنیا بی سی سی آئی کے پیچھے پڑ گئی اور اس پر جھوٹے سچے الزامات لگا کر بالآخر اسے بند کرادیا۔ بی سی سی آئی پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ اس کا پیسہ کالے دھندوں میں لگا ہوا ہے مگر مغرب کا کون سا ایسا بینک ہے جو یہ کام نہیں کرتا۔ مگر مغرب کے لیے سب جائز ہے۔
مغرب نے ایٹم بم ایجاد کیا اور مغرب ہی نے جاپان کے دو شہروں کو ایٹم بموں سے اُڑا دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب انسانیت کا سب سے بڑا دشمن ہے اور کسی بھی مغربی ملک بالخصوص امریکا کو ایٹمی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ جو ملک دوبار ایٹم بم استعمال کرچکا ہے وہ تیسری اور چوتھی بار بھی ایٹم بم استعمال کرسکتا ہے۔ مگر جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ قرار دیا گیا حالاں کہ مغرب کے بم کو عیسائی بم اسرائیل کے بم کو یہودی بم اور بھارت کے بم کو ہندو بم نہیں کہا گیا۔ مغرب پہلے دن سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا دشمن ہے اور اس کے خاتمے پر تلا رہتا ہے۔ عراق کے ایٹمی پروگرام کو اسرائیل کے ذریعے حملہ کراکے ختم کردیا گیا۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ’’رول بیک‘‘ کرالیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مغرب ایٹم بم بناسکتا ہے اور ایٹم بم رکھ سکتا ہے تو پاکستان، ایران یا کوئی اور مسلم ملک ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ آخر ایٹم بم مغرب کے لیے ’’حلال‘‘ اور مسلم دنیا کے لیے ’’حرام‘‘ کیوں ہے؟۔
ایران میں انقلاب آیا تو مغرب نے کہا کہ یہ ملاؤں کا انقلاب ہے اور طاقت کے ذریعے آیا ہے۔ مغرب نے کہا کہ مذہبی عناصر جمہوری جدوجہد کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکتے۔ مگر الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی، چناں چہ مغرب نے فرانس کی فوج کے ذریعے جمہوری انقلاب کو کچل دیا اور انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان جمہوری طریقے سے اقتدار میں آگئے مگر چوں کہ وہ اسلام پسند تھے اس لیے ان کے اقتدار کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔ حماس جہادی تنظیم تھی مگر اس نے خود کو سیاسی اور جمہوری تنظیم بنالیا۔ اس نے اسی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور 60 فی صد کے قریب ووٹ حاصل کیے۔ مگر مغرب نے حماس کی حکومت کو تسلیم کرکے نہ دیا۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو ایک سال میں فوج کے ذریعے گرادیا گیا۔ ترکی میں طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کرائی گئی جو محض اتفاق سے ناکام ہوگئی۔ اردوان پر بھی مغرب کو اصل اعتراض یہ ہے کہ وہ معاشرے کو مذہبی کیوں بنارہے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمان جمہوری راستے کو بند دیکھ کر خلافت کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ خلافت کی بات کرنے والے جمہوریت کے دشمن ہیں۔
یعنی مغرب مسلمانوں کے لیے تمام سیاسی راستے بند کیے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود مغرب اور مسلم دنیا میں اس کے آلہ کار جرنیل، اس کے آلہ کار سیاست دان، اس کے آلہ کار دانش ور، اس کے آلہ کار ذرائع ابلاغ آزادی کی بات کرتے ہیں، جمہوریت کی بات کرتے ہیں، انصاف کی بات کرتے ہیں، تہذیب کی بات کرتے ہیں۔
مسلمانوں کا ذکر بہت ہوچکا اب ہم کچھ غیر مسلموں کی بات کرتے ہیں۔ نوم چومسکی مغرب کے دو تین بڑے دانش وروں میں سے ایک ہیں۔ وہ نسل اعتبار سے یہودی اور فکر کے اعتبار سے لبرل اور سیکولر ہیں مگر محض اتفاق سے وہ مغرب بالخصوص امریکا کے ناقد بھی ہیں۔ وہ امریکا کو کئی بار بدمعاش ریاست کہہ چکے ہیں۔ چناں چہ ان کا حال یہ ہے کہ مغرب کا کوئی بڑا ٹی وی چینل انہیں گفتگو کے لیے نہیں بلاتا۔ ایڈورڈ سعید فلسطینی مگر عیسائی اور سیکولر تھے لیکن انہیں بھی مغرب پر اعتراض تھا۔ چناں چہ ایڈرورڈ سعید جب تک زندہ رہے انہیں کبھی بی بی سی، سی این این یا کسی دوسرے بڑے مغربی چینل پر نہ دیکھا جاسکا۔ مغرب چومسکی اور ایڈورڈ سعید کا ٹوئٹر اکاؤنٹ تو بند نہ کرسکا مگر وہ ان کا Voice Account ہمیشہ بند کیے رہا۔ یعنی مغرب نے کبھی چومسکی اور ایڈورڈ سعید کی آواز کو ایک حد سے زیادہ نہ پھیلنے دیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کے لیے نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید اور خادم حسین رضوی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔