عافیہ صدیقی کی رہائی۔۔۔ عمران حکومت سے توقعات

277

 

 

ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ 15 سال سے ’’جرم بے گناہی‘‘ کی سزا بھگت رہی ہیں۔ پاکستان سے ان کے اغوا، افغانستان کی جیل میں کئی سال تک ان پر بہیمانہ تشدد، پھر یہ راز فاش ہونے پر ان کی امریکا منتقلی اور وہاں ایک من گھڑت الزام کے تحت 86 سال قید کی سزا۔ یہ سارے واقعات گزشتہ چند برسوں کے دوران اخبارات میں بار بار دہرائے جاچکے ہیں۔ کون ہے جو اِس المناک کہانی سے آگاہ نہیں، پوری قوم اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان کے ایک بے غیرت فوجی حکمران نے امریکیوں کے ساتھ اس نیک سیرت خاتون کا سودا کیا تھا اور اپنی ہی قوم کی ایک دین دار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی کو چند ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا تھا۔ اس نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں عافیہ کا نام تو نہیں لیا لیکن اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے سیکڑوں افراد کو پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا اور اس کے عوض ان سے کئی ملین ڈالر وصول کیے۔ ظاہر ہے کہ اُن سیکڑوں لوگوں میں قوم کی بیٹی عافیہ بھی شامل تھی۔ اس سابق فوجی حکمران کے جرائم تو اور بھی ہیں اور قانون اس کے تعاقب میں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اسے بے وطنی کی جو سزا ملی ہے اور وہ پاکستان سے اپنا منہ چھپانے پر مجبور ہے تو یہ کسی اور جرم میں نہیں عافیہ کو وطن سے بے وطن کرنے کی سزا ہے جو قدرت نے اس پر مسلط کردی ہے اور وہ چاہے بھی تو پاکستان نہیں آسکتا۔ فوجی حکمران کے بعد ملک میں یکے بعد دیگرے دو سول حکومتیں آئیں اِن دونوں حکومتوں نے بھی عافیہ کے معاملے میں انتہائی بے حسی اور بے حمیتی کا ثبوت دیا۔ پہلی حکومت پیپلز پارٹی کی تھی جس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری خود تو صدر بن بیٹھے تھے لیکن ملک کے پارلیمانی نظام کو ایوان صدر سے چلا رہے تھے۔ ان کے دور میں ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو شہریوں کو قتل کردیا تھا اور موقع پر پکڑا گیا تھا۔ امریکی اسے ہر صورت میں چھڑانا چاہتے تھے وہ اس کے بدلے ڈاکٹر عافیہ کو رہا کرنے پر آمادہ تھے لیکن امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے جنہیں زرداری کا اعتماد حاصل
تھا امریکی حکام کو عافیہ کی رہائی کا موضوع نہ چھیڑنے دیا اور مقتولین کے ورثا کو دیت دے کر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروادیا۔ حالاں کہ مقتولین کے ورثا ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بدلے دیت کی رقم چھوڑنے پر آمادہ تھے اور حکومت چاہتی تو یہ کام ہوسکتا تھا۔ عافیہ کی چھوٹی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے بدلے ان کی بہن کی رہائی ممکن تھی لیکن حکومت کی ترجیحات مختلف تھیں، وہ اس کے بدلے کچھ اور حاصل کرنا چاہتی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں جب عافیہ کی رہائی کا معاملہ شدت سے اُٹھایا گیا اور عوامی سطح پر مطالبہ کیا گیا کہ حکومت امریکی عدالت میں عافیہ کے کیس کی پیروی کرے اور اس سلسلے میں ماہر وکلا کی خدمات حاصل کی جائیں تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وکلا کے معاوضے کے لیے 2 ملین ڈالر کی رقم کی منظوری دی تھی۔ یہ رقم براہ راست حسین حقانی کی تحویل میں دے دی گئی اور انہوں نے ایسے مجہول وکلا کی خدمات حاصل کیں جو عدالت میں عافیہ کا کیس لڑنے کے بجائے امریکا کے حق میں دلائل دیتے رہے اور انہوں نے کیس کو مزید بگاڑ دیا۔ ہمیں یاد ہے اُس زمانے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ان وکلاکے ساتھ تعاون کرنے سے
انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنا کیس خود لڑیں گی۔ حسین حقانی شاید یہی چاہتے تھے، انہوں نے وکلا کی خدمات واپس لے لیں اور عافیہ کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔
پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا اور میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو عافیہ کے خاندان کو پورا یقین تھا کہ وہ ان کی اور پوری قوم کی اس مظلوم بیٹی کو امریکی قید سے ضرور رہائی دلوادیں گے کیوں کہ انہوں نے سعودی عرب سے وطن واپس آنے کے بعد عافیہ کے مسئلے کو پوری شدت سے اُٹھایا تھا اور عافیہ کی والدہ اور بہن سے ملاقات کرکے انہیں یقین دلایا تھا کہ بس ان کے برسراقتدار آنے کی دیر ہے عافیہ رہا ہو کر پاکستان واپس آجائیں گی۔ لیکن جب 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے عافیہ کے معاملے میں آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ مریم نواز جو مسلسل ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے رابطے میں رہتی تھیں اور انہیں عافیہ کی رہائی کا یقین دلایا کرتی تھیں، اقتدار ملتے ہی اجنبی بن گئیں اور انہوں نے فوزیہ صدیقی کی کال ریسیو کرنے سے انکار کردیا۔ پھر جب امریکی صدر باراک اوباما اپنی مدت صدارت پوری کرنے والے تھے تو بالواسطہ طور پر ان کی طرف سے پاکستان کو یہ پیغام موصول ہوا کہ وزیراعظم پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے صدر امریکا کو ایک خط لکھ دیں تو صدر اوباما اپنے صدارتی اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے عافیہ کو رہا کردیں گے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیراعظم کا یہ مجوزہ خط حاصل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہیں کیوں کہ میاں نواز شریف اس اندیشے کا شکار ہوگئے تھے کہ کہیں انہیں عافیہ کا حامی نہ تصور کرلیا جائے اور وہ امریکیوں کی نظر میں مشکوک ہوجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اقتدار بھی امریکا کی حمایت سے ملا تھا اور وہ عافیہ کی رہائی کی درخواست کرکے اس حمایت میں بال نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
اب پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کے سربراہ عمران خان ہیں، وہی عمران خان جو اقتدار سے پہلے عافیہ کی رہائی کے لیے بہت سرگرم رہے ہیں، وہی برطانوی نو مسلم خاتون صحافی مریم ریڈلی کو اسلام آباد لے کر آئے تھے جس نے یہاں ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ افغانستان کی بگرام جیل میں 650 نمبر قیدی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں جن پر بہیمانہ تشدد کیا جارہا ہے۔ عمران خان پاکستانی قوم کی اس مظلوم بیٹی کو امریکی قید سے رہائی دلانے کا بار بار اعلان کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں بھی عافیہ صدیقی کی رہائی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں عافیہ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط کے ذریعے اپنی رہائی کی جانب متوجہ کیا ہے۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آپ نے ہمیشہ میری رہائی کے معاملے کو اُٹھایا ہے اور اسے سپورٹ کیا ہے، آپ ہمیشہ سے میرے ہیرو رہے ہیں، میں امریکا کی غیر قانونی قید میں ہوں اور اس سے رہائی کی منتظر ہوں‘‘۔ اس خط کی ترسیل کے بعد ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری سے ملاقاتیں کی ہیں اور اپنی بہن کی رہائی کے احکامات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ فوزیہ صدیقی پُرامید ہیں کہ عمران حکومت کی کوششیں بار آور ہوں گی اور عافیہ جلد رہا ہوجائیں گی۔ خدا کرے کہ یہ اُمید نقش برآب ثابت نہ ہو اور عافیہ صدیقی بحفاظت اپنوں میں واپس آجائیں۔ بلاشبہ یہ عمران حکومت کا ایک بڑا کارنامہ ہوگا۔