روئی کی محدود خریداری

303

کراچی:مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی محدود خریداری اور جنرز کی جانب سے اچھی کوالٹی کی روئی کی محتاط فروخت کے باعث روئی کے بھاؤ میں مجموعی طورپر استحکام رہا۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 100 روپے کی کمی کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 8800 روپے کے بھاؤ پر بند

کیا۔صوبہ سندھ و پنجاب میں روئی کا بھاؤ فی من 8500 تا 9050 روپے جبکہ پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3000 تا 4200 روپے رہا۔ جبکہ بلوچستان میں روئی کا بھاؤ فی من 8600 تا 8700 جبکہ پھٹی کا بھاؤ فی 40 کلو 3600 تا 4400 روپے رہا۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چئیرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی سامنے نہ آنے کی وجہ سے کاروبار متاثر ہورہا ہے۔ گیس کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے جبکہ بجلی میں اضافہ کردیا گیا ہے

تاہم امریکا اور چین کا تنازع کے متعلق ابھی ابہام پایا جاتا ہے دوبارہ خبریں گشت کر رہی ہے کہ برف پگھل رہی ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اس کے نتائج کا انتظار ہے۔ کیوں کہ ڈالر کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا ہے۔ بین الاقوامی کپاس منڈیوں میں مجموعی طورپر ملا جلا رجحان رہا USDA کی ہفتہ وار رپورٹ میں گزشتہ ہفتہ کے نسبت امریکا کاٹن کی برآمد میں 26 فیصد کمی کا مارکیٹ نے کوئی اثر نہیں لیا۔ مقامی طور پر پی سی جی اے (PCGA) کی جانب سے 15 نومبر تک ملک میں روئی کے پیداوار کے اعداد و شمار میں کپاس کی پیداوار کم ہونے کے عندیہ کے سبب روئی کے کاروبار میں ہفتہ کے آخری دو روز کے دوران ٹیکسٹائل ملز کی خریداری میں اضافہ دیکھا گیا لیکن جنرز نے زیادہ دام طلب کرنا شروع کردیا

جس کے باعث ملیں کچھ پیچھے ہٹنے لگیں کیوں کہ کاٹن یارن کے کم مانگ اور بھاؤ انچے بھاؤ پر روئی کا مزید ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی کیوں کہ پہلے ہی کئی ملوں میں کاٹن یارن کا ذخیرہ تشویشناک حد تک بڑھا ہوا ہے اور ملوں میں مالی بحران پیدا ہورہا ہے۔ملوں کے بڑے گروپ روئی کی درآمد کو ترجیع دے رہے ہیں 12 تا 15 نومبر کو امریکا میں کاٹن کی سالانہ سورسنگ سمیٹ Sourcing Summit منعقد کی گئی جس میں ملک کے کئی ملز مالکانوں اور ان کے نمائندوں اور کاٹن ایجنٹوں نے شرکت کی تھی وہاں بھی روئی کے درآمدی معاہدے کئے گئے ہیں۔

کاٹن کے کاروبار سے منسلک ماہرین اور خود کپاس کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پیداواری رقبہ کا اندازہ زیادہ لگایا جاتا ہے جس کے سبب پیداواری تخمینہ اور حقیقتا پیداوار میں 35 تا 40 لاکھ گانٹھوں کا وسیع فرق رہتا ہے جس کی وجہ سے حکومت کاشتکار اور کپاس کے کاروبار سے منسلک سارا سیکٹر ابہام میں رہتا ہے۔ نسیم عثمان نے استدعا کی کہ کپاس کے پیداواری رقبہ کا تعین تحصیل اور ضلع کے لیول پر لگایا جانا چاہئے اگر کیا بھی جارہا ہے تو اسے مزید فعال کیا جا? الل تلل اندازہ لگانے سے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔