پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات جاری ہیں

240

آج کل آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے اور مختلف اداروں اور اجلاسوں میں جا کر وزارت خزانہ، وزارت تجارت اور ایف بی آر کے اعلیٰ افسران اور متعلقہ وزرا سے پاکستانی معیشت، اس کے مسائل اور چیلنجوں سے آگاہی حاصل کررہی ہے، اس ٹیم کو باضابطہ پاکستانی حکومت نے ایک بیل آؤٹ پیکیج یا قرضہ کے حصول کے لیے دعوت دی ہے، یہ وہی آئی ایم ایف ہے جس سے قرضہ لینے کے معاملے میں عمران خان سخت مخالف تھے اور سابقہ حکومت کو قرضہ لینے پر منہ بھر بھر بُرا بھلا کہتے تھے، آج انہی کے دست راست وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے فضائل گنوا رہے ہیں۔ بقول شاعر
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اسد عمر صاحب کہتے ہیں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا یہ بائیسواں پروگرام ہوگا لیکن ان شاء اللہ یہ آخری ہوگا۔ ہمیں آئی ایم ایف سے 5 سے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی سخت شرائط قبول نہیں کریں گے۔ خصوصاً ایسی شرائط جن کا عام آدمی پر اثر ہو لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ بجلی اور گیس مہنگی کرنے، صحت اور تعلیم کے پیداواری اخراجات میں کمی کرنے، درآمد شدہ اشیا پر ڈیوٹی بڑھانے سے غریب آدمی کس طرح متاثر نہیں ہوگا اور اسی کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی کرنے اور شرح سود بڑھانے سے جو مہنگائی کی شرح 7 فی صد ہوگئی ہے، کیا اس کا تعلق غریب آدمی سے نہیں ہے۔
اس سے پہلے نواز شریف حکومت نے ستمبر 2013ء میں آئی ایم ایف سے 6.4 ارب ڈالر کا پیکیج لیا تھا اور اس قرض کے حصول کے لیے تمام شرائط تسلیم کی تھیں اور ان پر عملدرآمد بھی کیا تھا، مثلاً بجلی کی سبسڈی ختم کرکے اس کے نرخ 30 فی صد بڑھادیے گئے تھے۔ جنرل سیلز ٹیکس کا دائرہ مزید بے شمار اشیا تک بڑھا دیا گیا تھا جس سے کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہوگئی تھیں، پیداواری اخراجات میں کمی اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اداروں پر نجکاری کا عمل کردیا گیا تھا جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا تھا۔ نواز شریف سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے سال 2008ء میں 7.6 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرایا تھا اور اسی طرح سخت شرائط عوام کے سر پر برسائی تھیں جن سے ان کا کچومر نکل گیا تھا۔ اصل میں آئی ایم ایف کی شرائط کی نوعیت ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایک طرف بجلی، گیس اور آئل کی قیمتوں میں سبسڈی ختم کرکے اضافہ کیا جاتا ہے اس سے عوام متاثر ہوتے ہیں، دوسرے اس سے اشیا کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مہنگائی کا طوفان آتا ہے۔ تیسری طرف آئی ایم ایف کی شرط یہ ہوتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں اور شفا خانوں، سرکاری اسکولوں اور کالجوں، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور سیوریج پر اُٹھنے والے اخراجات میں کمی کی جائے، اس کا اثر عوام پر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ نجکاری کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوجاتے ہیں، ملک میں پیداواری عمل سکڑ جاتا ہے اور روزگار کے مواقعے کم ہوجاتے ہیں۔ یہ تمام صورتِ حال عملی طور پر اُن تمام ممالک میں بپا ہوچکی ہے جو آئی ایم ایف سے فیضیاب ہوئے۔
اصل میں آئی ایم ایف کا ٹارگٹ یہ ہوتا ہے کہ مالیاتی خسارہ کم کیا جائے اور اسے جی ڈی پی کے 4 فی صد تک لایا جائے جب کہ پاکستان میں اس وقت یہ خسارہ جی ڈی پی کے 5 فی صد تک ہے، دوسرے ٹیکسوں کی وصولیابی میں اضافہ کیا جائے، پاکستان میں جی ڈی پی کے حساب سے ٹیکسوں کی شرح 12 فی صد ہے جو بہت کم ہے، سال 2017ء میں 16 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع کرائے گئے اور ان میں سے 5 لاکھ 34 ہزار اِن ٹیکس دہندگان کے گوشوارے ہیں جنہوں نے کوئی ٹیکس جمع نہیں کرایا اور اس میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بڑے بڑے لوگ شامل ہیں، اسی طرح آئی ایم ایف کا یہ بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات ختم کیے جائیں۔ اس وقت صرف پاور سیکٹر پر 900 ارب روپے کے واجبات ہیں جب کہ عمران خان کی حکومت صرف اعلانات سے کام چلا رہی ہے، مثلاً منی لانڈرنگ کے 5.3 ارب ڈالر کی تفصیلات مل گئی ہیں یا 5 ہزار جعلی اکاؤنٹس کا ریکارڈ مل گیا ہے۔ لیکن عملی طور پر ایک ڈالر ملک میں نہیں آیا اور تو اور سعودی عرب سے جو 3 ارب ڈالر پاکستان کے اکاؤنٹس میں آئے تھے ان کا اب تک کچھ پتا نہیں۔ اسی طرح پاکستانی ٹیم جو اسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ کی قیادت میں چین گئی تھی اس کے کچھ واضح نتائج سامنے نہیں آئے۔ اپوزیشن کا یہ اعتراض بالکل درست ہے کہ اگر سعودی عرب، چین اور دوسرے دوست ممالک پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹس خسارہ کو کم کرنے کو تیار ہیں تو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی کیا ضرورت؟۔
بہرحال آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستانی معیشت کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے رہی ہے، اس نے ایف بی آر کے معاملے میں ایک مثبت مطالبہ کیا ہے اور حکومت نے اس کو تسلیم بھی کیا ہے کہ اس ادارے میں ٹیکسوں کی پالیسی اور انتظامی معاملات کو الگ الگ کیا جائے ورنہ اب تک یہ ہورہا تھا کہ جب بھی ٹیکسوں کی وصولی میں کمی کا معاملہ آتا تو ایف بی آر بڑی آسانی سے آئل کی مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرکے یا ودھ ہولڈنگ ٹیکس لگا کر ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ کرلیتا اور اس طرح ڈائریکٹ ٹیکس کم ہوتے جارہے تھے اور عوام پر بوجھ بڑھ رہا تھا۔
آئی ایم ایف 20 نومبر تک مختلف بریفنگ میں مصروف رہے گی اور اس کے بعد پاکستان کے بیل آؤٹ پیکیج کی فائل 22 نومبر کو واشنگٹن میں ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے رکھ دے گی۔ دیکھتے ہیں پاکستانی عوام کے لیے اس فائل سے کیا نکلتا ہے۔