مذہب، زبان اور برصغیر

417

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب اور برصغیر کی ملت اسلامیہ کے لسانی و تہذیبی تشخص پر حملے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ آئیے آج اس سلسلے میں تین تحریروں سے رجوع کرتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے پر فیروز بخت احمد کا مضمون شائع ہوا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’اردو کی گم ہوتی ہوئی آوازیں‘‘۔ اسی مضمون کی ذیلی سرخی یہ ہے۔
’’کسی زبان کا رشتہ مذہب سے جوڑنا غیر مناسب عمل ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ 24 اکتوبر 2018)
حارث خلیق ڈیلی ڈان کراچی میں NARRATIVE ARC کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ اپنے اس کالم میں انہوں نے فرمایا۔
’’عسکری نے قیام پاکستان کے بعد اپنی ابتدائی تحریروں سے انحراف کرتے ہوئے اردو ادب کے توسط سے اسلام کے ثقافتی احیا کی بات شروع کی۔ عسکری صاحب نے ترقی پسند تحریک پر جو تنقید کی اس کے ایک حصے کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ عقیدے پر مبنی ثقافت کا احیا ایک ایسی زبان کے ذریعے کیسے ممکن ہوسکتا ہے جس کے دائرے میں کئی صدیوں سے دوسرے عقاید اور جغرافیائی خطوں کے مصنفین اور قارئین موجود ہوں‘‘۔
(ڈان۔ 21 اکتوبر 2018)
اس سلسلے میں دریا قاضی کے ڈان میں شائع ہونے والے کالم کے نکات بھی اہم ہیں۔ وہ Lotus and The Rose کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں لکھتی ہیں۔
’’بھارت پر دو جارحیتوں نے گہرا اثر مرتب کیا۔ایک جارحیت آریوں کی جس نے سنسکرت اور ویدک مذہب کا تحفہ دیا۔ دوسری جارحیت مسلمانوں کی جنہوں نے بھارت میں ہند اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی، ان دونوں ثقافتوں کا سیاسی اثر زائل ہوا ہوگا مگر یہ دونوں ثقافتیں ہندوستانیوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ ان ثقافتوں کا تعلق یہ ہے کہ انہوں نے دوسری ثقافت کو بدلا بھی ہے اور یہ دوسری ثقافت سے اثر قبول کرکے خود بھی تبدیل ہوئی ہے۔ مسلمان جہاں گئے قرآن اور عربی زبان کے ساتھ گئے۔ ہندوستان میں بھی یہی ہوا۔ جس طرح مسلمانوں نے دنیا کے دوسرے حصے کی ثقافتوں کو متاثر کیا اور ان سے متاثر ہوئے ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اردو سے ترکی، فارسی، عربی اور اب انگریزی کے باہمی ملاپ سے جنم لیا۔ البتہ اردو کی گرامر سنسکرت مرکز ہے۔ فی زمانہ اسلام کے ’’برے لڑکے‘‘ کے امیج کے زیر اثر یہ سمجھنا دشوار ہے کہ اسلام بھارت میں سیکولرازم لے کر آیا۔ فارس اور وسطی ایشیا کا اسلام اپنی عربی بنیادوں سے دور تھا۔ برصغیر میں شہر مرکز سیکولر شاعری نے جنم لیا۔ برصغیر میں غزل اور قصیدے کی اصناف متعارف ہوئیں۔ آراستہ سیکولر عمارات تعمیر ہوئیں، یہ عمارتیں مسلم سلطنت کا نشانِ امتیاز تھیں، ان عمارتوں میں محل بھی تھے، مقبرے تھے اور باغات تھے۔ بھارت میں مودی کی حکومت نے حال ہی میں تاج محل کو سیاحوں کے کتابچے سے نکال باہر کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کرکے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی یا سیکولر ازم کو‘‘۔
قرآن مجید فرقان حمید کے دعوے کے مطابق سیدنا آدمؑ صرف ابوالبشر ہی نہیں زمین پر اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نبی بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی زبان بھی ہوگی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں مذہب اور زبان کا آغاز ایک ساتھ ہوا، چناں چہ روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے مضمون کا یہ دعویٰ جہالت کے سوا کچھ نہیں کہ زبان کا رشتہ مذہب سے جوڑنا غیر مناسب ہے۔ اس سلسلے میں کئی زبانوں اور گم شدہ تہذیبوں کی داستانوں کا مطالعہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عربی دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے اور اسلام سے پہلے کی عربی بھی مذہبی تصورات سے منسلک تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ماقبل اسلام کے عرب بھی اللہ کا تصور رکھتے تھے البتہ انہوں نے کئی خدا ایجاد کررکھے تھے۔رسول اکرمؐ کی بعثت سے قبل کے عرب رسالت کے ادارے سے بھی آگاہ تھے۔ مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ موجود تھا اور وہ ماقبل اسلام کی عرب دنیا کا روحانی مرکز تھا۔ یہ تمام حقائق عربی پر اثر انداز تھے۔ مگر اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی عربی سَر تا پامذہبی زبان بن گئی۔ قرآن عربی میں ہے۔ حدیث عربی میں ہے۔ فقہ کی روایت عربی میں ہے۔ علم کلام کی جڑیں عربی میں پیوست ہیں۔ سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ کا بہترین زمانہ عربی مرکز ہے۔ دنیا کی جس زبان میں اسلام پر کام ہوا ہے وہ عربی سے واقفیت کا نتیجہ ہے۔ ان حقائق سے آگاہ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ فارسی کا وطن ایران ہے مگر ایران کی فتح کے بعد فارسی بھی مکمل طور پر ایک مذہبی زبان بن گئی۔ یہاں تک کہ اس زبان نے جو عظیم الشان شاعری پیدا کی ہے وہ اسلام کا حاصل ہے۔
ہندوستان میں ویدوں کے ظہور کے زمانے پر اتفاق نہیں۔ کوئی ویدوں کو ایک لاکھ سال قدیم بتاتا ہے کوئی دو لاکھ سال تاہم ویدوں کے چھ ہزار سال پرانا ہونے پر ایک طرح کا اتفاق رائے موجود ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سنسکرت 6 ہزار سال سے ایک مذہبی زبان ہے۔ اس لیے کہ ہندو ازم کی تمام مقدس کتب سنسکرت میں ہیں۔ وید سنسکرت میں ہیں۔ مہا بھارت سنسکرت میں ہے۔ گیتا سنسکرت میں ہے۔ رامائن سنسکرت میں ہے۔ بروان سنسکرت میں ہے۔ ہندو ازم کی ساری دعائیں اور ذکر و اذکار سنسکرت میں ہیں۔ ویدوں کے سب سے بڑے عالم شنکر آچاریہ کا علم تفسیر سنسکرت میں ہے۔ جس طرح عربی اور فارسی کا اثر اردو پر پڑا ہے اور اس اثر نے اردو کو بھی ایک مذہبی زبان بنادیا ہے۔ اس طرح سنسکرت کا اثر ہندی پر پڑا ہے۔ کیا یہ حقائق یہ بتارہے ہیں کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؟۔
بدھ ازم کی روایت میں پالی ڈیڑھ دو ہزار سال تک مذہبی زبان سمجھی گئی ہے۔ یورپ میں کئی صدیوں تک لاطینی زبان کو مذہبی زبان ہونے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جدیدیت زدگان ایک جانب تو یہ کہتے ہیں کہ مذہب ایک قدیم یا Primitive چیز ہے۔ دوسری جانب وہ اس خیال کو آگے بڑھاتے ہیں کہ زبان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، ارے بھائی اگر مذہب قدیم شے ہے تو ابتدا میں دنیا کی ساری زبانیں ہی مذہبی زبانیں رہی ہوں گی۔ عہد حاضر میں قدیم تہذیبوں کے جتنے آثار تلاش کیے گئے ہیں ان تمام تہذیبوں میں خدا اور مذہب کا کوئی نہ کوئی تصور موجود تھا۔ چناں چہ ہر زبان اپنی اصل میں مذہبی زبان ہے۔ البتہ مغرب میں لامذہبیت کے آغاز کے بعد سے ان زبانوں پر کفر و الحاد یا سیکولرازم کا منحوس سایہ پڑنا شروع ہوا۔ ان تمام علمی حقائق کے باوجود جنگ جیسا بڑا اخبار زبان اور مذہب کے قدیم رشتے پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔ واہ اسلام اور اردو کی کیا خدمت ہورہی ہے۔
حارث خلیق نے ڈان میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اسلام، اردو اور محمد حسن عسکری پر بیک وقت حملہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ عسکری صاحب اردو کے ذریعے مذہبی ثقافت کا احیا چاہتے تھے۔ حارث خلیق نے کہا ہے کہ ایسا ممکن نہیں تھا کیوں کہ بقول ان کے اردو صرف مسلمانوں کی زبان تھوڑی ہے بلکہ اس کے دائرے میں دوسرے عقاید کے لکھنے اور پڑھنے والے بھی شامل ہیں۔ جھوٹ، مکر، فریب اور جہالت کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہر زبان کا ایک مرکزی دھارا ہوتا ہے اور اس مرکزی دھارے ہی سے زبان کا تشخص متعین ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو کا مرکزی دھارا اسلامی بھی ہے اور مسلم بھی۔ اسلامی ان معنوں میں کہ اردو کے تخلیقی مواد کا 90 فی صد مذہبی تصورات، مذہبی تناظر، مذہبی حسیّت، مذہبی دلائل اور مذہبی حقائق سے آراستہ ہے۔ مسلم ان معنوں میں کہ اردو کے لکھنے والوں میں 99 فی صد لوگ مسلمان ہیں۔ ایک فی صد غیر مسلموں کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی تخلیق کردہ تہذیبی کائنات ہی میں سانس لیتے ہیں۔ اس کی ایک بہت ہی بڑی مثال فراق گورکھ پوری ہیں۔ فراق ہندو تھے مگر ان کی غزل کا ہندو تہذیب سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہندو تہذیب میں نہ غزل تھی، نہ ہے، نہ ہوسکتی ہے۔
پریم چند ہندو بھی تھے اور ترقی پسند بھی مگر انہوں نے مسلم کرداروں پر مشتمل افسانہ ’’عیدگاہ‘‘ تخلیق کیا تو ایسا لگا کہ ان کے تناظر اور مسلمانوں کے تناظر، ان کی نفسیات اور مسلمانوں کی نفسیات، ان کے طرزِ احساس اور مسلمانوں کے طرز احساس اور ان کی تہذیب اور مسلمانوں کی تہذیب میں کوئی فرق ہی نہیں۔ آپ عیدگاہ سے پریم چند کا نام ہٹا کر کسی عام آدمی کو یہ افسانہ پڑھنے کے لیے دیں تو وہ کہے گا کہ یہ افسانہ کسی مسلمان کا لکھا ہوا ہے۔ پریم چند کے افسانے شطرنج کے کھلاڑی کی فضا بھی اچھے اور بُرے دونوں معنوں میں ہندو اسلامی تہذیب کے ایک مخصوص دور کی فضا ہے۔ اردو شاعری کے تین بڑے ستون ہیں۔ میر، غالب اور اقبال۔ ان تین میں سے دو یعنی میر اور اقبال مذہبی بھی ہیں اور مخصوص معنوں میں روایتی بھی۔ غالب کی شاعری کولن ولسن کے معنوں میں outsider کی شاعری ہے اور اس پر مذہبی اور تہذیبی اعتبار سے بڑے اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن غالب مذہبی شعور سے یکسر عاری نہیں ہیں۔ ہوتے تو وہ یہ نہ کہتے ؂
اس کی امت میں سے ہوں میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالب گنبد بے در کھلا
اردو کی مذہبی روایت اتنی گہری ہے کہ زبان، بیان اور محاورے کی سطح پر ہی سہی اس نے فلمی گیتوں تک پر اثر ڈالا ہے۔ ملاحظہ کیجیے بھارتی فلمی گیتوں کے کچھ ٹکڑے۔
پہلا کردار
اے کاش کسی دیوانے کو
ہم سے بھی محبت ہوجائے
ہم لٹ جائیں دل کھو جائے
بس ایک قیامت ہوجائے
دوسرا کردار
ہے وقت ابھی توبہ کرلو
واللہ مصیبت ہوجائے
(فلم۔ آئے دن بہار کے)
یہ گیت دو ہندو خواتین کرداروں پر فلمایا گیا ہے۔ ذرا گیت کے فلمی مصرعوں کی لغت پر غور کیجیے۔ محبت، قیامت، توبہ، واللہ۔ آپ یہاں یہ نہ دیکھیے کہ گیت میں کیا کہا جارہا ہے آپ یہاں یہ دیکھیے کہ دو ہندو کردار کن الفاظ، کن اصطلاحوں میں اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔
بھارت کی نام نہاد ہندی فلم کا ایک اور گیت ہے۔
یہ لڑکا ہائے اللہ کیسا ہے دیوانہ
کتنا مشکل ہے توبہ اس کو سمجھانا
کہ دھیرے دھیرے دل بے قرار ہوتا ہے
ہوتے ہوتے ہوتے پیار ہوتا ہے۔
(فلم۔ ہم کسی سے کم نہیں)
یہ گیت بھی ایک ہندو لڑکی کے کردار پر فلمایا گیا ہے مگر ذرا ہندو لڑکی کے الفاظ تو دیکھیے ہائے اللہ، توبہ۔
ایک اور فلم کے بول یہ ہیں۔
لو چہرہ سرخ شراب ہوا
آنکھوں نے ساغر چھلکایا
یہ غصہ تیرا سبحان اللہ
اک حُسن کا دریا چڑھ آیا
اس گیت میں ایک ہندو مرد کردار ایک ہندو لڑکی سے مخاطب ہے مگر اس کی زبان پر ساغر کا لفظ ہے۔ سبحان اللہ کی تکرار ہے۔ اس کے باوجود حارث خلیق فرما رہے ہیں کہ اردو زبان و ادب کے دائرے میں اسلامی ثقافت کا احیا کیسے ممکن ہے۔ کسی صاحب کو یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم تین گیتوں کی مثال دے کر رہ گئے۔ ہندوستانی فلموں کے گیتوں پر مسلم تہذیب کے اثرات کا جائزہ پی ایچ ڈی کی سطح کے مقالے کا موضوع ہے۔ کسی کو دلچسپی ہو تو ہم اس سلسلے میں اس کی تھوڑی بہت مدد کرسکتے ہیں۔
دریا قاضی نے تو اس سلسلے میں حد ہی کردی۔ سنا ہے کہ وہ جامعہ کراچی کے Audio Visual Studies کے شعبے کی نگراں ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اردو کو اپنے کالم میں لشکری زبان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ خود مغرب میں یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ کوئی زبان مختلف زبانوں کا ملغوبہ نہیں ہوتی۔ اس اصول کا اطلاق اردو پر بھی ہوتا ہے۔ اردو کی تخلیق اسلامی تہذیب کی تخلیقی قوت کا ایک غیر معمولی مظہر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان دو تین صدیوں سے زوال پزیر ہیں۔ یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے زوال آمادہ ہونے کے باوجود اردو زبان تخلیق کر ڈالی۔ برصغیر کے مسلمان اگر زوال آمادہ نہ ہوتے تو وہ جانے کیا کرتے۔ دریا قاضی ایک سرخوشی کے عالم میں فرماتی ہیں کہ وسط ایشیا سے آنے والے مسلمان بادشاہ عرب بنیادوں سے کٹے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ان کے عہد میں کروڑوں ہندو مسلمان ہوئے۔ اس کے نتیجے میں آج جنوبی ایشیا 60 کروڑ مسلمانوں سے آراستہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلام سے منسلک ہے یا ہندو تہذیب سے؟۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر کے مسلمانوں پر اس سے بڑا الزام کوئی نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ سیکولر ازم لے کر برصغیر میں آئے۔ بلاشبہ برصغیر کے مسلم بادشاہوں کی اچھی خاصی تعداد ’’اچھی مسلمان‘‘ نہیں تھی مگر کم بہتر مسلمان ہونے کا مطلب سیکولر ہونا نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کم سیکولر ہونے کا مطلب مذہبی ہونا نہیں ہوتا۔
دریا قاضی نے اردو کی شاعری کو بھی مشرف بہ سیکولر ازم کر ڈالا۔ یہ ظلم کی انتہا ہے۔ اردو شاعری کا بیشتر حصہ غزل کی شاعری پر مشتمل ہے۔ اس شاعری کا بڑا حصہ تصوف کی روایت کے زیر اثر ہے۔ اردو کی عشقیہ شاعری مجازی عشق سے نمودار ہوئی ہے اور ’’مجاز‘‘ کی اصطلاح ’’حقیقت‘‘ کے تناظر میں وضع ہوئی۔ اگر کوئی حقیقت نہیں تو کسی مجاز کا بھی کوئی وجود نہیں اور کون نہیں جانتا کہ حقیقت سے مراد حقیقت اولیٰ یعنی خدا ہے۔ مطلب یہ کہ مجاز کی تعریف بھی دراصل حقیقت ہی کی تعریف ہے۔ خدا نے قرآن میں خود کہا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مجازی عشق کی شاعری کو سیکولر سمجھنا بہت، بہت، بہت ہی بڑی جہالت ہے۔ بدقسمتی سے دریا قاضی نے تاج محل کو بھی سیکولر بنادیا حالاں کہ تاج محل کا ڈیزائن اور اس کی جمالیات اپنی اصل میں اسلامی تہذیب کا حاصل ہے۔ دریا قاضی یہ جاننے کے لیے تاج محل پر (National Geographic) کی تیار کردہ دستاویزی فلم ہی دیکھ لیں۔ دریا قاضی آرٹ کی ماہر ہیں مگر انہیں اتنی بات بھی معلوم نہیں کہ تاج محل کی جمالیات کا معنی کے تصور سے گہرا تعلق ہے۔ اس کے برعکس سیکولر ازم کی انتہا کی علمبردار جدید مغربی تہذیب Cult of Ugliness پر کھڑی ہوئی ہے۔ یہاں سلیم احمد کا ایک شعر یاد آیا۔
سلیم اچھی غزل ہے تیری مانا
مگر یہ پھول گھورے پر کھلے ہیں