کرپشن تو گرفت میں آگئی لیکن۔۔۔!!

389

وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کے خلاف مزید چار مقدمات احتساب کے قومی ادارے نیب کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے جو تاثر گزشتہ دو تین سال سے پیدا کیا جارہاتھا اب وہ برگ و بار لارہاہے۔ یعنی پوری قوم اس امر پر یکسو کردی گئی ہے کہ پاکستان کا پہلا اور آخری مسئلہ کرپشن ہے اور اگر کرپشن ختم ہوگئی تو سارے دلدر دور ہوجائیں گے۔ کرپشن میں بھی شریف خاندان مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر شریف خاندان کی کرپشن پکڑی گئی تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ یا تھوڑی بہت کرپشن زرداری صاحب کی بھی پکڑی جائے گی۔ باقی سب ٹھیک ہے۔ چند لمحوں کے لیے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ معاملہ ایسا ہی ہے۔ ان دو پارٹیوں نے باریاں لگاکر ملک کو بری طرح لوٹا ہے۔ بیرون ملک اندرون ملک بے تحاشا جائدادیں بنائیں۔ بیرونی بینکوں میں رقوم کا کوئی حساب نہیں۔ کسی چیز کا کچھ پتا نہیں بس کہیں الزامات ہیں اور کہیں تھوڑا بہت ثبوت، ایک سزا سنائی گئی وہ بھی مفروضے پر جسے ختم کردیا گیا۔ چنانچہ اب میاں نواز شریف، مریم اور صفدر مقدمے بھگت رہے ہیں۔ شہباز شریف گرفتار ہیں۔ مزید چار مقدمات عدالتوں میں جائیں گے۔ اخبارات ان کے مختلف مقدمات کی خبروں اور ججوں کی دلچسپ جملے بازیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مزید بھر جائیں گے۔ ان لوگوں کو ان کے کیے بلکہ اصل کیے کی سزا ملے گی یا نہیں۔ لیکن عوام کو اپنے کیے کی سزا ملنا شروع ہوگئی ہے۔ شاید انہیں دیر سے سمجھ میں آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر، نواز شریف پھر بے نظیر اور پھر نواز شریف اور پھر نواز شریف کو اقتدار میں لانے کی غلطی کرنے والے عوام تبدیلی کی غلطی بھی کر بیٹھے۔ جو لوگ بھی سیاسی معاملات کنٹرول کرتے ہیں انہوں نے جب یہ یقین کرلیا کہ قوم دو ہی علامتوں کو کرپٹ اور ملک کے نقصانات کا ذمے دار سمجھ رہی ہے تو وہ ان دونوں پارٹیوں کے لوگوں کو ایک تیسری پارٹی میں جمع کر کے اقتدار میں لے آئے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں اور تبصروں کی بھر مار نے اس سمجھ کو یقین میں بدل دیا۔ نتیجہ کیا ہورہاہے، سب کی نظر یں کرپشن کے خلاف اقدامات پر ہیں۔ بند کرو سارے شریف خاندان کو، زرداری کو بھی پکڑو۔ اس کے ساتھیوں کو بھی۔ نواز شریف کا کوئی ساتھی بچ نہ پائے۔ اس شور میں پیٹرول مہنگا، دو ماہ میں تین مرتبہ مہنگا، بجلی کے نرخوں میں اضافہ، گیس کے نرخوں میں اضافہ، روپیہ ایک سو روپے سے 136 روپے فی ڈالر ہوگیا۔ چائنا ڈیلی کی خبر ہے کہ پاکستان کے قرضے 95 ارب ڈالر ہوچکے ہیں۔ 2022ء میں پاکستان کو 31 ارب ڈالر قرض میں ادا کرنے ہوں گے۔ سی پیک کے تحت 80 ملین ڈالر سالانہ ادا کرنے ہیں۔ چین سے ملنے والا پیکیج وزیراعظم بتانہیں رہے۔ سعودی عرب والے کی شرائط نہیں معلوم۔ آئی ایم ایف بھی مسلط ہونے کو ہے۔ لیکن کرپشن کے خلاف مہم تو کامیاب ہے۔ قوم مطمئن ہے کہ کرپشن کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔ کسی نے وہ کام نہیں کیے جو حکومت پاکستان اب کررہی ہے۔ پھر وفاقی وزیر خزانہ نے روایتی بیانات دیے کہ ان اقدامات سے عوام متاثر نہیں ہوں گے۔ چونکہ میڈیا اور حکومت ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ اس لیے یہی تاثر دیا جارہاہے۔ یہ بات کہنے والے عوام تک میڈیا کا کیمرہ یا رپورٹر کی گاڑی یا موٹر سائیکل نہیں پہنچ پاتی جو یہ بتارہا ہو کہ آٹا مہنگا ہوگیا، ٹرانسپورٹ کرائے بڑھ گئے، بچوں کے لیے دودھ مہنگا ہوگیا، انڈے، ڈبل روٹی مہنگے ہوگئے، دوائیں قیمتیں منجمد ہونے کے باوجود مہنگی ہوچکیں۔ ڈاکٹروں نے فیسیں بڑھادی ہیں۔اسکول کی کتابیں اور فیس بڑھ گئی۔ لیکن بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا ٹی وی چینل یہ نہیں بتارہا بلکہ پوری قوم آج کل ججوں کے دلچسپ مکالمے سن کر سر دھن رہی ہے۔ ابھی نئی حکومت لانے کا نشہ ہے رفتہ رفتہ اترے گا اس لیے کوئی سوال نہیں پوچھا جارہا۔ قادیانی مشیروں پر بھی غلطی کا فائدہ دے دیا گیا بلکہ خود ہی لے لیا۔ آسیہ مسیح کے معاملے میں عدالت کا سہارا مل گیا۔ اسرائیل کے معاملے میں فی الحال جواب نہیں مل رہا لیکن وزیراعظم نے یوٹرن کی بحث چھیڑ دی۔ اب میڈیا اس میں الجھاکر رکھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کررہا۔ میڈیا کا کام حقائق سامنے لانا تھا وہ پگڑیاں اچھالنے اور ایجنڈے بھگتانے میں مصروف ہے۔ یا ججوں کے ریمارکس اور سیاست دانوں کے چٹکلوں پر گزارہ کررہاہے۔ عدالت کا کام انصاف دینا تھا وہ اسپتالوں، پانی کے نمونوں، مکھن، دودھ غرض ہر چیز کا نوٹس لے رہی ہے۔ ہزارہا زیر التوا مقدمات کسی اور کے لیے رکھ چھوڑے ہیں۔ چار پانچ ہائی پروفائل مقدمات میڈیا کے لیے چل رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف مہم زوروں پر چل رہی ہے۔ شریف خاندان پوری طرح گرفت میں ہیں۔ لہٰذا فی الحال کوئی کچھ نہیں پوچھے گا۔ چین سے قرضہ، سعودی عرب سے امداد، آئی ایم ایف کی ہر شرط منظور۔ کوئی نہیں پوچھے گا۔ کیونکہ کرپشن کے خلاف مہم کامیابی سے جاری ہے۔ یہ بھی کوئی نہیں پوچھ رہا کہ زرداری اور نواز شریف نے جن لوگوں کی مدد سے کرپشن کی تھی وہ حکومت کی صفوں میں کیا کررہے ہیں۔ بس کرپشن کے خلاف مہم کامیاب ہے۔ کسی کو یاد ہے کہ نواز شریف کی گرفت پاناما سے ہوئی تھی اس میں چار سو سے زیادہ پاکستانیوں کے نام تھے۔ وہ فہرست کھوگئی یا غلط تھی۔ اس میں تو بہت سے مقدس نام بھی تھے۔ اب انتظار فرمایئے جب لوگوں کا تبدیلی سے دل بھر جائے گا۔ مکالمے اور تبصرے پرانے ہوجائیں گے تو لوگ ہوش میں آئیں گے کہ کرپشن کی کہانی سنتے سنتے ان کے ساتھ کیا کرپشن ہوگئی ہے۔ ووٹ دیتے وقت بھی تو ہوش نہیں ہوتا۔