اسلام میں یو ٹرن ہوتا ہے؟

229

 

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی گزارنے کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس کی رہنمائی اسلام میں نہ ملتی ہو۔ دنیا و آخرت میں کامیابی اسی صورت میں نصیب ہو سکتی ہے جب اللہ کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط پر اپنی انفرادی اور اجتمائی زندگی بسر کی جائے۔ اسلام صرف چند عبادات کو ادا کر دینے کا نام نہیں بلکہ پورے نظام ہائے زندگی کو اپنا لینے کا نام ہے۔ اسلام کا تعلق امور مملکت سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں اس کا نفاذ ہے۔ عبادت فرد کی انفرادی تربیت کرتی ہے اور اس کو آنے والے وقت کے لیے تیار کرتی ہے۔ عملی زندگی کے جن جن ادوار، آزمائشوں اور مشکلات سے اسے گزرنا ہوتا ہے اس کے لیے اسے تیار کرتی ہے۔ عبادات کا زیادہ تعلق اس کی اْخروی زندگی سے ہوتا ہے جن کو ادا کرکے وہ مالک حقیقی کے سامنے سرخ روئی حاصل کر سکتا ہے لیکن کچھ امور وہ ہوتے ہیں جن کو اختیار کیے بغیر وہ دنیا میں کسی بھی صورت امن، چین اور سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس نے عبادات کو ترک کیا وہ بعد الموت ان نعمتوں کو نہیں پا سکے گا جو نعمتیں اللہ کے ان بندوں کو حاصل ہوں گی جنہوں نے دنیا میں اللہ کی بتائی ہوئی عبادات کو ان کے پورے حق کے ساتھ ادا کیا ہوگا۔ اسی طرح دنیوی زندگی کے وہ ثمرات جو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ادا نہیں کیے جائیں گے یا ان کو ان کے حق کے مطابق نافذالعمل نہیں کیا جائے گا، وہ کس طرح حاصل کیے جا سکتے ہیں جس کی بنی نوع انسان کو تلاش ہے۔
اگر ہم دیانتداری سے اس بات کا جائزہ لیں تو دنیا کے وہ تمام ممالک جن میں امن و سکون نظر آتا ہے اور لوگ پُر سکون اور مطمئن و خوشحال نظر آتے ہیں ان کے ملکی قوانین جن اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ترتیب دیے گئے ہیں وہ سارے کے سارے اسلام کی عالمگیر سچائیوں کے نزدیک تر نظر آتے ہیں۔ ان کے معاشرے میں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے۔ ماحول کی صفائی ایمان تصور کی جاتی ہے۔ عدل ان کا بنیادی اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ ہر قسم کے قانون پر عمل لازمی تصور کیا جاتا ہے اور قانون کی نظر میں ملک کا ہر شہری برابر خیال کیا جاتا ہے، وعدے کا مطلب اسے پورا کرنا ہی سمجھا جاتا ہے اور اس سے انحراف دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ ثابت یہ ہوا کہ دنیا کی زندگی میں بھی امن، سکون اور اطمینان کے لیے وہی تمام عالمگیر سچائیاں جن کا اسلام تقاضا کرتا ہے، پوری کی جائیں گی تو فلاح نصیب ہو سکے گی ورنہ تباہی و بربادی، شر، فساد اور وحشت و درندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اگر معاشرے میں انسان کو انسان سمجھا جائے گا، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، جعل سازی کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں ہوگا، قانون کی حکمرانی ہوگی اور اس کی زد میں جو بھی آئے گا اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسا معاشرہ کسی پراگندگی کا شکار ہو۔
اب جائزہ لیتے جائیں اس وقت دنیا میں کون کون سے ممالک وہ ہیں جہاں کے لوگ دنیوی اعتبار سے ایک مطمئن اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں اور کن کن ممالک کو ہر قسم کی بے کیفیت، افتراقیت، بے چینی اور بد امنی کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرکے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا کہ وہ جس انداز میں چاہیں اپنی زندگی گزاریں بلکہ ان کے لیے زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہ اخلاق نازل کیا جس کو اسلام کہا جاتا ہے۔ اس ضابطے کا ایک حصہ وہ ہے جس کو اختیار کیے بغیر وہ آخرت کی زندگی میں کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتے اور ایک حصہ وہ جس کو اختیار کیے بغیر وہ اس دنیا میں اپنے لیے چین اور سکون حاصل نہیں کر سکتے۔ اب دنیا کے جن جن ممالک نے اپنے قوانین اسلام کی عالمگیر سچائیوں سے قریب تر بنا لیے ہیں وہاں حالات دنیا کے ان تمام ممالک سے مختلف اور اچھے ہیں جنہوں نے ان قواعد و ضوابط کو نہ تو اپنے آئین و قانون میں جگہ دی ہے اور نہ ہی اپنے بنائے ہوئے کسی آئین و قانون پر منصفانہ عمل درآمد کو فوقیت دینے کو تیار ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ گویا حکم دیا گیا ہے اپنی دنیوی اور اْخروی زندگی کو الگ الگ بنیاد پر استوار مت کرو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی فرد یا معاشرہ اللہ کی عالمگیر سچائیوں میں سے جس کو بھی اختیار کرے گا اس سچائی کے مطابق اس کو وہ تمام فوائد حاصل ہوں گے جو اس اصول کو اپنانے میں پوشیدہ ہیں لیکن جن جن کو وہ اختیار نہیں کرے گا اس کے نقصانات سے بھی وہ بچ نہیں پائے گا۔ دنیا کے وہ ممالک جن میں اسلام کی عالمگیر سچائیوں کے مطابق جو جو بھی ملکی قوانین ترتیب دیے گئے ہیں ان کے فوائد وہ بے شک سمیٹ رہے ہیں لیکن جن جن سے انہوں نے دوریاں اختیار کی ہوئی ہیں ان سب کے عذاب کا انہیں سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کا معاشرہ بہت تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اسلام کسی بھی سطح پر جھوٹ اور دھوکا دہی کو پسند نہیں کرتا بلکہ جھوٹ بولنے والے پر خالق حقیقی خود لعنت بھیجتا ہے اور کاذب یعنی جھوٹ بولنے والا اللہ کے نزدیک سخت گناہگار اور لائق سزا ہے۔ جھوٹ ایک عام انسان بولے یا وہ جس پر کروڑوں انسانوں کی ذمے داری ہو، کسی کے لیے جائز نہیں۔ اس لیے کسی کا یہ کہنا کہ اپنی باتوں سے پھر جانا، عرف عام میں ’یو ٹرن‘ خامی نہیں خوبی ہے، کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا اور خاص طور سے کسی ایسے فرد کا اس پر اصرار جس پر اللہ تعالیٰ نے بڑی ذمے داری ڈالی ہو اس کا اپنے ’یوٹرن‘ پر ڈٹ جانا اور اس کے لیے دلائل دینا کسی بھی طور کسی اچھائی میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، احمق آدمی اپنی بات پر ڈٹ جاتا ہے، عقل مند انسان یوٹرن لیتا ہے، تاریخ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی۔ ممکن ہے کہ اس بیان کے سیاق اور سباق ان کے نزدیک وہ نہ ہوں جن کو عرفیت حاصل ہے اور وہ یہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ اگر کوئی کیا گیا فیصلہ یا اٹھایا گیا قدم غلط نتائج دے رہا ہو تو اس کا جائزہ لے کر کیے فیصلے کو بدل لینا یا اٹھائے گئے قدم سے واپسی کوئی غلط بات نہیں لیکن جن باتوں کی وجہ سے وہ اپنی سیاسی زندگی کے آغاز سے لیکر تاحال روگرادانی کرتے چلے آرہے ہیں وہ کسی حکمت عملی میں نہیں دھوکا دہی اور جھوٹ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ بہت سارے معاملات جس میں کسی ملک سے قرضہ نہ لینے کی باتیں ہوں یا ملکوں ملکوں دوروں پر دورے نہ کرنے کا ذکر ہو لیکن بعد کے حالات متقاضی ہوں کہ کی گئی باتوں پر از سر نو غور کرکے اور ملک کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایسا سب کچھ کرنا بہتر ہو سمجھا جائے تو ایسا اپنی بات کے برعکس کرلینا تو کسی حکمت عملی کا تقاضا مانا جاسکتا ہے لیکن قوم سے کیے گئے وعدوں سے پھر جانا اور ان کو آرام دینے کے بجائے عذاب میں مبتلا کردینا حکمت عملی نہیں سخت جھوٹ اور فریب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ پاکستان کے عوام و خواص اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کو سستا کیا جائے گا لیکن یہی سب کچھ محض اس لیے مہنگی کی جارہی ہیں کہ آئی ایف سے قرض لینے کی پہلی شرط ہی یہی ہے۔ پہلے تو یہی بات کہ قرض سے بہتر مرجانا قرار دیا گیا تھا پھر یہ کہ مذکورہ ہر چیز کو سستا کردینے کا ذکر تھا لیکن ان سب سے پھرجانا اگر حکمت عملی اور قابل فخر و ذکربات ثابت کی جائے تو پھر اس پر اظہار افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ جب وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کر چکے ہیں تو اس مخمصے سے باہر آئیں اس لیے کہ اللہ کے رسول کا ارشاد ہے کہ جب کوئی فیصلہ کرو تو اس پر ڈٹ جاؤ یہ کہیں نہیں کہا کہ فیصلے کے بعد پیٹھ دکھاؤ۔ دو باتوں میں سے اب آپ کو کسی ایک بات پر عمل کرنا ضروری ہو گیا ہے یا تو یہ تسلیم کرنا ہے اور ڈٹ جانا ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانا ہے یا پھر اس بات کا اقرار کہ آپ ’یوٹرن‘ کے سوا کسی سچائی (جھوٹ) کے قائل نہیں۔ امید ہے کہ اپنے بیانات کا از سر نو جائزہ ضرور لیں گے۔