بارہ تیرہ برس کے شریف زادے تھے لیکن گرمئی کلام! مطلع سنا تو سودا بھی چونک گئے۔
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
سودا نے کلام کی بہت تعریف کی۔ مطلع کئی مرتبہ پڑھوایا لیکن ایک عجیب بات کہی ’’میاں لڑکے جوان تو ہوتے نظر نہیں آتے‘‘ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ نوجوان ایک حادثے میں جل کر مرگیا۔
تحریک انصاف کو اقتدارمیں آئے سو دن پورے نہیں ہوئے۔ تاہم گرمئی گفتار اور کردار کا وہ عالم ہے کہ حکومت بہ زبان سودا جوان ہوتی نظر نہیں آرہی۔ حکومت نے ابتدائی دنوں ہی میں ایسے نازک اور حساس معاملات چھیڑ دیے ہیں جن کی تاپ کی تاب آج تک کوئی حکومت نہ لاسکی۔ پاکستان کے عوام قادیانیت کے بارے میں کس درجہ حساس ہیں دنیا جانتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسا سیکولر وزیر اعظم بھی اس مسئلے کے سامنے نہ ٹھیر سکا۔ انہوں نے بھی عافیت اسی میں سمجھی کہ تیر انداز کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ چاروں طرف سے تیر برس رہے ہوں تو سلامتی اسی میں ہے کہ تیر انداز کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ بھٹو اپوزیشن اور قوم کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر مسلم تاریخ میں ایک باعزت مقام کے حقدار ٹھیرے۔ عمران خان صاحبِ مطالعہ ہیں۔ ناممکن ہے وہ پاکستان کی تاریخ کے اس اہم موڑ اور قادیانیوں کے باب میں پاکستان کے عوام کے جذبات سے آگاہ نہ ہوں۔ اس کے باوجود انہوں نے 2013 کی انتخابی مہم میں عاطف میاں قادیانی کو اپنا اقتصادی مشیر بنانے کی بات کی۔ شور اٹھا تو جواز پیش کیا کہ انہیں عاطف میاں کے قادیانی ہونے کا علم نہیں تھا۔ قادیانیوں کے بارے قوم کے یہ جذبات عمران خان کے لیے سبق اور حتمی اشارہ تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا رکن بنادیا۔ اس پر احتجاج ہوا تو عاطف میاں کی اقتصادی مہارت کی تعریفیں شروع کردی گئیں۔ کہا گیا ریاست میرٹ پر چلتی ہے۔ عوامی دباؤ پر حکومت نے یہ فیصلہ واپس لیا مگر دکھی دل کے ساتھ۔
آسیہ مسیح کی رہائی۔۔ یہ تو ہین رسالت کا معاملہ تھا۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آتے ہی پاکستان میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوام کا غصہ قابل فہم تھا۔ وہ بجا طور پر عدالتی نظام پر اعتماد نہیں کرتے۔ آسمان تا ابد ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے امام مالکؒ کا قول ہے ’’جس امت میں رسول کریمؐ کی تو ہین ہو اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں‘‘۔ ان ہی امام مالک ؒ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے عمران خان مدینہ منورہ ننگے پاؤں جاتے ہیں۔ آسیہ مسیح کا فیصلہ آنے کے بعد حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ حکومت خاموشی اختیار کرتی۔ موقف اپناتی کہ یہ حکومتی نہیں عدالتی فیصلہ ہے۔ ہر معاملے پر ردعمل دینا ضروری نہیں ہوتا لیکن حکومت عدالتی فیصلے کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے نہ صرف ان کے مقابل آگئی بلکہ دھمکیوں پر اُتر آئی۔ ’’ہم ریاست ہیں۔ ہم ٹھیک کردیں گے۔ ریاست کی طاقت سے نہ ٹکرانا‘‘۔ چار دن تک پورا ملک شعلوں میں جلتا رہا۔ اربوں روپے کا نقصان ہوگیا۔ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔ عدالت کے پاس عوامی جذبات کے خلاف فیصلہ دینے کا غلط یا صحیح جواز ہوسکتا ہے لیکن حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ اس موقع پر دھمکیاں دیتی۔ اپنے مسخ امیج کی بحالی کے لیے حکومت بین الاقوامی سیرت النبی کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہی ہے۔ ماضی میں ایسی کانفرنسیں نہ بھٹو کو بچاسکیں نہ ضیاالحق اور نواز شریف کو۔ بھول جائیں ایسی کانفرنسیں حکومت کے امیج کو بحال کرسکیں گی یا اُسے بچا سکیں گی۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے ’’مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چا ہیے۔ خاکے کہیں بنتے ہیں واویلا یہاں شروع ہوجاتا ہے۔ کسی دوسرے مذہب کے شخص کو مشیر لگایا جاتا ہے تو احتجاج ہونے لگتا ہے۔ اس طرح کا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ یہ لڑائی نظریات کی لڑائی ہے اور اس لڑائی کا جواب بندوق سے نہیں بلکہ دلیل سے دینا چاہیے۔‘‘ یہ بیان نہیں ایک مائنڈ سیٹ کی ترجمانی ہے، سیکولرازم اور لبرل خیالات کا عکاس۔ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ فواد چودھری کو اتنا تو پتا ہی ہوگا کہ مذہب کی سیاست تھی جس کی بنا پر پاکستان وجود میں آیا۔ یہ قائداعظم اور علامہ اقبال کی مذہبی سیاست تھی جس کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا۔ اسلام، نسل رنگ، زبان اور وطن کی بنیاد پر نہیں دین کی بنیاد پر دنیا کے معاملات کا حل تلاش کرتا ہے جس میں سیاست بھی شامل ہے۔ اسلام کو خارج کرکے پاکستان کی تعمیر وترقی ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں فرمایا تھا:
’’کیا واقعی مذہب ایک نجی معاملہ ہے؟ اور آپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک اخلاقی تخیل کے تو برقرار رکھیں لیکن اس کے نظام سیاست کے بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کریں جن میں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان با قی نہیں رہتا۔ (دین اور سیاست) دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کا ترک بھی لازم آئے گا‘‘۔
دوسری تکلیف فواد چودھری کو یہ ہے کہ ’’خاکے کہیں بنتے ہیں واویلا یہاں شروع ہوجاتا ہے‘‘۔ اس شخص کو علم نہیں مسلمان امت واحدہ ہیں۔ امت کا ہر فرد سیدالانبیاؐ کو اپنی جان، مال، عزت اور آبرو سے زیادہ عزیز رکھتا ہے۔ ایک ارب 70کروڑ افراد۔ امت مسلمہ۔ جس کا ہر فرد تڑپ اٹھتا ہے، جب اسے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ان کے آقاؐ کی توہین کی گئی ہے۔ مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا، اس کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک سید المرسلینؐ کی عزت حرمت اسے اپنے ماں باپ جان مال سے زیادہ محترم نہ ہو۔ امت مسلمہ ایک برادری ہے۔ استعمار کے ایجنٹ، مسلم ممالک کے حکمران اس برادری میں شامل ہوں یا نہ ہوں مسلمان جسد واحد ہیں۔ ان کے دکھ سکھ، عزت ذلت خوشی اور غم ایک ہیں۔ خاکے کہیں بھی بنیں، امت کا ہر فرد غم وغصے سے کھول اٹھے گا، وہ پا کستان میں رہتا ہو یا دنیا میں کہیں بھی۔ عمران خان کی حکومت کو طے کرنا ہو گا وہ اس برادری میں شامل ہے یا نہیں۔
عاطف میاں کو مشیر کے عہدے سے ہٹانے کا دکھ بے کراں ہے، حکومت کو بھلائے نہیں بھولتا۔ حکومت کو قادیانیوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اپنا سیکرٹریٹ ربوہ میں جاکر کھول لے۔ اگر باصلاحیت لوگ صرف قادیانیوں ہی میں پائے جاتے ہیں تو ہمت کریں، کھل کر سامنے آئیں، پوری کابینہ قادیانیوں پر مشتمل تشکیل دے دیں۔ عمران خان کو اندازہ نہیں ہے کہ حکومت کے آغاز ہی میں وہ کس سمت نکل گئے ہیں۔ وہ اسلام کے بنیادی نظریات اور اس ملک کے عوام کے جذبات کی مخالف سمت میں جارہے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے یہ فواد چودھری کے ذاتی خیالات ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات حکومت کا ترجمان ہوتا ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا وہ لکیر کے کس طرف کھڑی ہے۔