یورپ سے علیحدگی کا بحران، برطانوی سامراجی ذہنیت کا عکاس

307

 

 

برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کی بے تابی کے عذاب کی وجہ سے برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مے اس وقت چومکھی بحران میں گرفتار ہیں۔ 2016 کے ریفرنڈم کے بعد جس میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپ سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تھا ڈھائی سال ہوگئے ٹوری حکومت یورپ سے طلاق کے بارے میں سمجھوتا طے کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب جب کہ علیحدگی کی تاریخ 29 مارچ 2019 سر پر آن پہنچی ہے ٹریسا مے نے سخت عجلت میں یورپ سے طلاق اور آئندہ رشتوں کے بارے میں جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے خلاف ان کی ٹوری پارٹی میں شدید بغاوت بھڑک اٹھی ہے۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ یورپ کے چنگل سے آزادی کا وہ منصوبہ نہیں ہے جس کے لیے عوام نے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تھا۔ ٹریسا مے کی کابینہ کے پانچ وزیروں نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے استعفا دے دیا ہے اور اب باغی ٹوری اراکین پارلیمنٹ ٹریسا مے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ادھر حزب مخالف لیبر پارٹی اور دوسرے مخالف جماعتوں نے جن میں اسکاٹش نیشنل پارٹی پیش پیش ہے، اس منصوبے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ آخری کوشش کے سلسلے میں ٹریسا مے اپنے منصوبے پر یورپی یونین سے حتمی مذاکرات کے لیے 25 نومبر کو برسلز جارہی ہیں لیکن وہاں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے اس کی پارلیمنٹ میں منظوری مشکل نظر آتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کو بغیر کسی سمجھوتے کے یورپ کو الوداع کہنا پڑے گا جس کے تباہ کن نتائج کا سامنا یقینی ہے۔
موجودہ بحران کو دیکھ کر مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب 1974 میں ٹوری پارٹی کے وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ نے برطانیہ کی ابتر اقتصادی صورت حال کے پیش نظر یورپی مشترکہ منڈی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد دوسرے سال ہی لیبر وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے مشترکی منڈی میں شمولیت کے مسئلے پر ریفرنڈم کرایا تھا۔ اُس وقت سار استدلال یہ تھا کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد یورپ میں جنگوں کے خاتمے کے لیے یورپ کا جو سیاسی، فوجی اور اقتصادی اتحاد قائم کیا گیا ہے اس کو مضبوط بنایا جائے اور یورپ میں شمولیت سے برطانیہ اپنا بین الاقوامی اثرو نفوس دوبارہ حاصل کر سکے گا جو وہ اپنی سمندر پار نوآبادیوں کے خاتمے کے بعد ہاتھ سے گنوا بیٹھا ہے۔ اس ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے اس قدر جوش و خروش سے یورپی منڈی میں شمولیت کے حق میں فیصلہ کیا تھا جیسے یورپ پر وہ چھا جائیں گے۔ یوں پچھلے چوالیس سال سے برطانیہ یورپ میں خوشحالی سے سرشار تھا اور متحدہ یورپ سے سیاسی قوت اور اثر و رسوخ حاصل کررہا تھا۔
لیکن اس دوران UKIP کے نائجل فراج کی قیادت میں نسل پرست قوتوں نے یورپ کے تارکین وطن اور یورپ کے راستے آنے والے پناہ گزینوں کی آمد پر ایسا شور مچایا کہ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بوکھلا گئے اور انہیں ٹوری پارٹی کے بکھرنے اور اپنے اقتدار کے خاتمے کا خطرہ پیدا ہوا۔ کیمرون کی اس گھبراہٹ سے نسل پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے ٹوری پارٹی کے دائیں بازو کے عناصر سے گٹھ جوڑ کر کے یورپ سے علیحدگی کے لیے مہم چلائی۔ آخر کار کیمرون نے گھٹنے ٹیک دیے اور یورپ سے علیحدگی کے سوال پر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ریفرنڈم بے حد جذباتی ماحول میں ہوا جس کے دوران یورپ سے علیحدگی کے اقتصادی اور سیاسی مضمرات پر قطعی سنجیدہ بحث نہیں کی گئی۔ سارا زور اس پر تھا کہ برطانیہ برسلز میں یورپی یونین کے مرکز کے قواعد
اور احکامات کی وجہ سے اپنی خود مختاری کھو بیٹھا ہے اور یورپ سے بلا روک ٹوک یورپیوں کی آمدو رفت کی بنا پر اپنی سرحدوں پر کنٹرول سے محروم ہوگیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس پر بھی شور مچایا گیا کہ یورپی عدالت کے دائرہ اختیار کی وجہ سے برطانیہ اپنی عدلیہ کی آزادی کھو بیٹھا ہے۔ اس جذباتی ماحول میں یورپ سے علیحدگی کے حامیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یورپی یونین کی رکنیت کی بنا پر برطانوی تاریخ کا گہرا تسلسل ٹوٹ گیا ہے اس دعوے کے پس پشت دراصل برطانیہ کے ماضی کی سامراجی ذہنیت کا سراب تھا اور یہ احساس تھا کہ یورپ میں شمولیت کی وجہ سے اس کی پرانی نوآبادیوں والے علاقوں سے اس کا اثرونفوس معدوم ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے عوام کو دوسری عالم گیر جنگ میں چرچل کی قیادت میں برطانیہ کی فوجی بالادستی پر بے حد قدر و فخر رہا ہے اور اب بھی یہ عظمت رفتہ کی روشنی سے اپنے قلب گرماتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ اب یورپ کے 28 ملکوں میں سے ایک ملک ہے جسے دنیا کے سپر ملکوں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ عوام ماضی کے سراب میں یہ بھول جاتے ہیں کہ برطانیہ فوجی طور پر اس قابل نہیں کہ وہ دوسر ی عالمگیر جنگ کے پیمانے کی جنگ لڑنے کے بارے میں ایک لمحہ کے لیے سوچے۔ دوسری عالمگیر جنگ میں چرچل کو عالمی سامراجی قوت حاصل تھی۔
برطانیہ میں لوگ، 1956 کی سوئز کی جنگ بھی یاد کرتے ہیں جب انتھونی ایڈن نے سوئز پر قبضہ کے لیے مصر پر حملہ کیا تھا۔ لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت برطانیہ یورپ کی مالدار معیشت سے سرشار تھا اور اس کی فوجی قوت کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔ آج برطانیہ محض ایک یورپی طاقت ہے فرانس اور جرمنی کی طرح۔ اس صورت حال کے لیے دوش برطانیہ کے عوام یورپی یونین کی رکنیت کو دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے تمام مضمرات سے آنکھیں بند کر کے بے قرار ہیں اور وہ اسے برطانیہ کی خود مختاری کی بازیابی تصور کرتے ہیں۔
اب برطانیہ کے عوام پر یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ اگر یورپی یونین سے بغیر کسی سمجھوتے کے علیحدگی اختیار کی گئی تو اس کے نتیجے میں برطانیہ کا اتحاد پارہ پارہ ہونے کا خطرہ ہے۔ سب سے مشکل مسئلہ شمالی آئر لینڈ کا ہے جہاں آئی آر کی طویل مسلح جدوجہد اور خانہ جنگی کے بعد رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان فرائی ڈے ایگریمنٹ طے پایا تھا اور دونوں فرقوں کے درمیان اقتدار کی شراکت کے علاوہ جمہوریہ آئرلینڈ کے درمیان سرحد کھلی رکھی گئی ہے۔ برطانیہ کی علیحدگی کے بعد جمہوریہ آئرلینڈ یورپ میں شامل رہے گا۔ جس کے بعد سرحد پر آزادانہ آمد ور رفت بند ہو جائے گی۔ فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے یہ تجویز کیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے شمالی آئرلینڈ کسٹم یونین میں شامل رہے گا۔ یورپ سے علیحدگی کے کٹر حامیوں کا اصرار ہے کہ یہ انتظام محدود عرصہ کے لیے ہونا چاہیے لیکن یورپی یونین غیر معینہ عرصہ پر مصر ہے۔ شمالی آئرلینڈ کے پروٹسٹنٹ فرقہ کو خطرہ ہے کہ اس انتظام سے شمالی آئرلینڈ پر برطانیہ کی خود مختاری کو زک پہنچے گی۔ پھر اسکاٹ لینڈ میں عوام کی اکثریت یورپ میں برقرار رہنے کی حامی ہے، وہاں عوام کا کہنا ہے کہ آئرلینڈ کے ساتھ جو ترجیح برتی جارہی ہے وہ اسکاٹ لینڈ سے نا انصافی ہے اور اس ناانصافی کی بنیاد پر اسکاٹ لینڈ دوبارہ آزادی کے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گا۔ یہ صورت حال برطانیہ کے اتحاد لے لیے نہایت خطرناک ہے۔
اگر وزیر اعظم ٹریسا مے اپنی پارٹی کی بغاوت پر قابو پا لیتی ہیں تب بھی یورپ سے طلاق کے سمجھوتے کی پارلیمنٹ سے منظوری نا ممکن نظر آتی ہے۔ اور اگر بلا سمجھوتے کے برطانیہ یورپ سے علیحدہ ہوتا ہے تو ٹریسا مے کا نام تاریخ میں برطانیہ کے ناکام ترین وزراے اعظم میں لکھا جائے گا۔