’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ 

262

نئے پاکستان کی انوکھی بلکہ مضحکہ خیز باتیں سامنے آنے لگیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ’’یوٹرن‘‘ پر اپنا موقف پیش کیا تو ملک بھر میں عمران مخالف اور حمایتی سیاسی شخصیات بحث پر اتر آئیں۔ اس طرح سب ہی نے سیاست کے دیگر مسائل کو پس پشت ڈال کر ’’یوٹرن‘‘ لے لیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’’حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا، جو یوٹرن لینا نہیں جانتا اس سے بڑا بیوقوف لیڈر کوئی نہیں ہوتا‘‘۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تاریخ میں نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اپنی وزارت کے ’’چودھراہٹ‘‘ والے انداز میں کراچی پریس کلب کے حوالے سے اعتراف کیا تھا کہ ’’چھاپے کے حوالے سے کوئی مس انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی، کوئی بھی پاکستانی شہری کسی جرم میں ملوث ہو گا، خواہ وہ صحافی یا کوئی بھی ہو، پریس کلب ہو یا کوئی بھی جگہ ہو، اتھارٹی ان کو گرفتار کرے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم پریس کلبوں کو خط لکھنے جا رہے ہیں کہ وہ اپنے ارکان کی مکمل چھان بین کریں، کیوں کہ بعض افراد صحافی نہیں لیکن وہ پریس کلب کے کارڈز بنوا کر پریس کلبوں کو چھپنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ایسا ہی معاملہ وکلا کے ساتھ بھی ہے لہٰذا ان کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے۔ صحافی نصراللہ کی گرفتاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اطلاعات کی بنیاد پر چھاپا مارا اور جو افراد گرفتار ہونے تھے وہ ہوگئے ہیں اور اب وہ نتائج کا سامنا کریں گے۔
وزیراعظم اور وزیر اطلاعات دونوں کی ہی باتوں کو ’’لطائف‘‘ سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران کا ’’یوٹرن‘‘ کے حوالے سے موقف ان کے اپنے پرانے دعوں اور وعدوں کی ناکامی کا اعتراف ہے جب کہ وفاقی وزیر کا صحافیوں اور پریس کلب کے حوالے سے بیان اپنے آپ کو ’’ڈیڑھ ہوشیار‘‘ ظاہر کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
وزیراعظم عمران تو سیاست ہی کیا ازدواجی اور ذاتی معاملات میں بھی یوٹرن لینے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جمائما سے شادی سے قبل انہوں نے ایک ٹی وی شو میں کامیڈین معین اختر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے شرماتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اخبارات میری تو روزانہ ہی منگنی کی خبر چلا دیتے ہیں جس پر میں سمجھتا کہ شاید میری بہنوں نے کوئی لڑکی میرے لیے دیکھ لی ہو اور بہنیں یہ سمجھتی تھیں کہ میں نے کسی کا انتخاب کرلیا ہے، بہرحال میں جب بھی شادی کروں گا اپنی بہنوں کی مرضی ہی سے کروں گا۔ مگر انہوں نے جمائما سے اچانک اور اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرکے اپنی زندگی کا پہلا ’’یوٹرن‘‘ لیا۔ لیکن ازدواجی معاملات میں اس طرح کے یوٹرن سے نا عقل مندی کا ثبوت مل سکا اور نہ ہی عمران خان کو کوئی واضح فائدہ پہنچ سکا (اگر فائدہ ہوتا تو وہ 22 سال پہلے نہیں تو 15 سال پہلے ہی وزیراعظم بن جاتے)۔ اگر ان کی سابقہ دو شادیاں کامیاب ہوتیں تو ہم کہہ سکتے تھے کہ نئی شادی کے لیے یوٹرن واقعی کامیابی کی دلیل ہے۔ رہی بات ان کی حکومت کے اور ان کے چہیتے وزیر فواد چودھری کے سیاست میں ’’یوٹرن‘‘ کی تو اس کے لیے لفظ ’’یوٹرن‘‘ کا استعمال خود اس لفظ کو بدنام کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت کی طرف لپکنے اور چمٹنے والے کو ’’یوٹرنر‘‘ یا یوٹرن لینے والا نہیں بلکہ ’’لوٹا‘‘ کہا جاتا ہے اور یہی کہنا مناسب ہے۔ میرا خیال ہے کہ فواد چودھری جس طرح کے خود ساختہ سیاسی تجزیہ نگار بن گئے تھے اسی طرح وہ اپنے آپ کو صحافت اور صحافیوں کی دائی سمجھنے لگے ہیں۔
فواد کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے اراکین کی اسکروٹنی ہونی چاہیے۔ انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ پریس کلب کا رکن بننے کے لیے اتنی سخت شرائط ہیں جتنی کسی اور باڈی یا ایسوسی ایشن میں اب تک نہیں۔ کلب کا کوئی رکن نئے فرد کی رکنیت پر اعتراض کرکے اسے رکن بننے سے روک سکتا ہے۔ سچ بات اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہ صحافت اور پاکستانی صحافی ہی ہیں جن کی وجہ سے موجودہ دور کے سیاست دانوں کی ’’سیاسی دکانیں‘‘ چل رہی ہیں۔ وطن عزیز کا صحافی چاہے نیوز چینل میں ہو یا اخبار میں وہ اپنے سے زیادہ دوسروں خصوصاً سیاست دانوں کے ’’مقدمات‘‘ لڑتا ہوا اور معاملات سلجھاتا ہوا نظر آتا ہے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم صحافی اپنی ذات کو منفی کرکے سب ہی لوگوں کی مدد خدائی خدمت گار کے طور پر کیا کرتے ہیں۔ مگر نتیجے میں نصراللہ بھائی کی طرح جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ فواد چودھری کو اللہ کے نظام پر بھی تھوڑا وقت نکال کر توجہ دینی چاہیے کہ انہوں نے صحافیوں اور صحافیوں کے ایوانوں (پریس کلبز) کے بارے میں زبان دراز کی اسی روز ان پر ان ہی کے سیاسی ایوان سینیٹ میں داخلے پر پابندی لگ گئی۔ حالاں کہ سینیٹ میں فواد چودھری کے داخلے پر پابندی سے صحافیوں کا دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا تعلق تھا تو صرف ان کی اپنی ’’زبان‘‘ کا جو اکثر قابل اعتراض الفاظ خارج کرتی رہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران اور فواد چودھری کو چاہیے کہ اپنی زبان کے استعمال سے قبل ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ کے مثل عمل کریں۔ ورنہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’زبان سے نکلی ہوئی بات تلوار سے بھی تیز ہوتی ہے‘‘۔ یقین نہ آئے تو سابق وزراء اعظم میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سے بھی پوچھا جاسکتا ہے۔
نصراللہ چودھری جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور ان کے سب ہی ساتھی مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہیے کہ انصاف کے تقاضوں کے تحت نصراللہ چودھری کی رہائی کا حکم دے اور ان کے خلاف درج مقدمات واپس لے۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ سینیٹ میں وزیراعظم کے داخلے پر پابندی کے بعد موجودہ حکمران ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرنے لگیں۔