مدینے جیسی ریاست کے لیے 

364

پاکستان سے لے کر دنیا کے کونے کونے تک جہاں کہیں مسلمان بستے ہیں وہ کسی نہ کسی طور ربیع الاول کے حوالے سے رحمت اللعالمین سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ بحثیں بھی جاری ہیں کہ یہ یوم ولادت ہے یا یوم وفات لیکن محبت رسولؐ کے اظہار پر سب متفق ہیں۔ اس سال 12ربیع الاول ایک ایسی حکومت کے زیر سایہ پاکستان میں منایا جارہاہے جس کا اعلان تھا کہ ہم مدینے جیسی ریاست بنائیں گے اور پاکستانیوں نے اس پر یقین کرلیا۔ اس دعوے یا وعدے کو عملی جامہ پہنانا تو بہر حال حکومت کا کام ہے اس کے لیے یقیناًحکومت وقت چاہتی ہوگی اور اسے اس کا وقت ملنا بھی چاہیے لیکن کچھ ایسے کام ہورہے ہیں جن کی وجہ سے مدینے جیسے ریاست کے قیام کے بارے میں شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ قادیانی مشیروں، ختم نبوت اور دینی امور کے بارے میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی لا علمی سب سے بڑا مسئلہ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اس سال12ربیع الاول سرکاری طور پر منایا جائے گا- اس پر ان کے ساتھیوں اور حکومت کے ہمدردوں نے واہ واہ بھی کی تھی لیکن چونکہ وزیراعظم عمران خان پہلی مرتبہ بحیثیت وزیراعظم بہت سی چیزیں کراور دیکھ رہے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا یا کسی نے بتایا نہیں کہ پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں ہمیشہ سے 12ربیع الاول سرکاری سطح پر منایاجاتا ہے۔ سرکاری عمارتوں پر چراغاں یا روشنی کا اہتمام، سرکار کے زیر اہتمام ہی ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہی سیرت کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بھی ایسی کانفرنسوں کو انٹرنیشنل بنایا گیا۔ گوکہ اس سے پہلے بھی بین الاقوامی سطح پر یہ کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی پاکستان آیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس میں کوئی نئی بات نہیں کہ حکومتی سطح پر 12ربیع الاول منایا جائے لیکن جو نئی بات بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں دیکھنے میں آئی وہ نہایت قابل توجہ ہے۔ حکومتوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی درد دل کے ساتھ توجہ بھی دلائے تو اسے حکومت دشمنی یا مخالفت پر محمول کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ذمے داری بہر حال میڈیا کی ہے کہ حکومت کو ایسی غلطیوں پر متوجہ کیا جائے جو اس کے لیے بھی نقصان دہ ہوسکتی ہیں اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا کو بھی خراب کرسکتی ہیں۔ بین الاقوامی سیرت کانفرنس اس مرتبہ ملک کے جید علما اور بیرون ملک کے اسکالرز سے محروم رہی یا وہ نظر نہیں آئے۔ لیکن پاکستان میں ایسے علمائے کرام موجود ہیں جو برسہا برس سے قومی سیرت کانرنس میں اہم خطاب کرتے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی صلاحیتوں اور علمی مقام کی ایک دنیامعترف ہے لیکن حکومت سے اس سال یہ سہو ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں موقع نہیں دیا گیا۔ اور جو لوگ بیرون ملک سے بلائے گئے وہ یقیناًقابل احترام ہیں لیکن عالم اسلام میں بہت بڑے علما موجود ہیں۔ کانفرنس ان سے محروم رہی۔ بات صرف اتنی نہیں رہی۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر دینی علم کی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے دینی معاملات میں گفتگو کر ڈالی اور اس چکر میں عجیب بات کہہ گئے کہ تاریخ میں حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر نہیں ہے۔ ان کے اس جملے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ دینی علم کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو تاریخ کا علم بھی نہیں ہے۔ اگر ان سب باتوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور حکومت کی ٹیم کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات ممکن نظر نہیں آتی کہ یہ ٹیم مدینے جیسی ریاست قائم کرسکے۔ مدینے کی ریاست نے تو سب سے پہلے غیر مسلم ریاستوں کے سر براہوں کو خطوط لکھے تھے کہ اسلام قبول کرلو۔ یہاں دعوت دین کون دے گا۔ اس کے لیے دین کا علم بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ ملک کی معاشی ترقی، سی پیک، سڑکیں، پل، عمارتیں، پارک اور جدید آسائشیں سب جاری رہیں گی لیکن مدینے جیسی ریاست بنانے کے لیے یا تو خود دین کا اتنا علم حاصل کریں کہ اس جانب پیش رفت کرسکیں ورنہ ان لوگوں سے مدد لیں جو دین کا علم رکھتے ہوں۔ ویسے کئی برس اتحادی رہنے والے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت 12 ربیع الاول کو نفاذ شریعت کا اعلان کرے۔ انہوں نے کہاہے کہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجز کا حل نظام مصطفی کے نفاذ میں ہے۔ وزیراعظم کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ جس طرح انہوں نے ناموس رسالت کے حواالے سے اپنی دانست میں بین الاقوامی قوانین کے ماہر سے رجوع کیا ہے اسی طرح مدینے جیسی ریاست بنانے کے لیے اس ریاست کے بارے میں جاننے والوں کی مدد لینی ہوگی ورنہ ایں خیال است ومحال است و جنوں تک بات رہ جائے گی۔