پاکستان کو ’’القاعدہ‘‘ سے زیادہ خطرہ ہے یا ’’الفائدہ‘‘ سے؟ اس سوال کا جواب عیاں ہے۔ القاعدہ اب ایک افسانہ ہے اور الفائدہ ایک حقیقت۔ القاعدہ محض ایک چھوٹی سی تنظیم ہے اور الفائدہ خود پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کو الفائدہ قرار دینے کی بنیاد کیا ہے؟۔
زندگی دو ہی چیزوں سے چلتی ہے اصول سے یا فائدے کے تصور سے۔ اصول کو اختیار کرنے والے ہر صورت میں اصول ہی کو بالادست رکھتے ہیں خواہ ان کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ اس کے برعکس فائدے کو اہمیت دینے والے ہر صورت میں فائدے کو پیش نظر رکھتے ہیں خواہ اس سے مذہب، اخلاق، اصول، تاریخ اور تہذیب ہی کیوں نہ پامال ہوجائے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں 1971ء میں مشرقی پاکستان بحران کا شکار تھا اور پورے مشرقی پاکستان میں پاکستان کا دفاع کرنا زندگی کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا۔ ان حالات میں البدر اور الشمس کے نوجوانوں نے جان کی بازی لگا کر ملک کے دفاع کی جنگ لڑی مگر جب تک اسٹیبلشمنٹ کو البدر اور الشمس کے نوجوانوں کی ضرورت تھی اس نے البدر اور الشمس کی سرپرستی کی مگر جیسے ہی البدر اور الشمس سے فائدے کا امکان ختم ہوا اسٹیبلشمنٹ نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ ہمارے جرنیلوں نے خود تو ہندوستان کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو جنگی قیدی کی حیثیت سے محفوظ کرلیا مگر البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے وحشیوں نے البدر اور الشمس کے ہزاروں جوانوں کو قتل کردیا۔ یہ الفائدہ کی پیدائش کا مرحلہ بھی تھا اور اس کے عروج کے سفر کا آغاز بھی۔
مشرقی پاکستان میں البدر اور الشمس کے لوگوں پر جو گزری سو گزری مگر الفائدہ نے ان محب وطن پاکستانیوں کو بھی کام نکلتے ہی اپنے حافظے سے کھرچ پھینکا جنہیں عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بھی ملک کی محبت میں فوج کا ہراوّل دستہ بنے ہوئے تھے مگر الفائدہ انہیں بھی فراموش کرکے آگے بڑھ گئی۔ نتیجہ یہ کہ ان پاکستانیوں کی بڑی تعداد آج بھی بنگلا دیش کے کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کررہی ہے۔
یہ بات بھی کل کا قصہ ہے کہ الفائدہ نے افغانستان میں طالبان کو تخلیق کیا اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے یہ دلیل دی کہ طالبان افغانی نہیں ہیں ’’ہمارے بچے‘‘ ہیں۔ ’’ہمارے بچے‘‘ پانچ سال تک الفائدہ کے کام آتے رہے مگر نائن الیون کے بعد امریکا کا دباؤ آیا تو ’’ہمارے بچے‘‘ اچانک ’’پرائے بچے‘‘ بلکہ ’’دہشت گرد بچے‘‘ ہوگئے اور الفائدہ نے دھڑا دھڑ ’’ہمارے بچے‘‘ امریکا کے حوالے کرنے شروع کردیے۔ اس کی وجہ کوئی اصول، کوئی ضابطہ یا کوئی اخلاقی پہلو نہیں تھا۔ بلکہ بات صرف اتنی تھی کہ طالبان کی افادیت ختم ہوچکی تھی اور فائدہ اب انہیں پکڑنے اور امریکا کے حوالے کرنے میں تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے اپنے اعتراف کے مطابق الفائدہ نے طالبان کی فروخت سے کروڑوں ڈالر کمائے۔
ایک طویل عرصے تک خود القاعدہ الفائدہ کی آنکھوں کا تارا رہی ہے۔ القاعدہ افغانستان میں برپا جہاد کا مرکز تھی۔ ملک میں حکومتوں کو گرانے کے لیے اس کا پیسہ استعمال ہورہا تھا۔ اسامہ بن لادن ایک ہیرو کا نام تھا، مگر نائن الیون کے بعد الفائدہ کا نعرہ القاعدہ کو بھی نگل گیا اور اسامہ بن لادن کے امیج کو بھی۔
نواب اکبر بگٹی نے تمام زندگی مرکز کی سیاست کی، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی مگر ایک دن آیا کہ ان کی ’’افادیت‘‘ بھی ختم ہوگئی اور الفائدہ نے آگے بڑھ کر نواب اکبر بگٹی کے چراغ حیات کو گُل کردیا۔ نواب اکبر بگٹی کی المناک ہلاکت سے پہلے بلوچستان صرف ایک ’’مشکل علاقہ‘‘ تھا مگر نواب اکبر بگٹی کے قتل نے بلوچستان کو آتش فشاں بنادیا۔ مگر آج القاعدہ اور الفائدہ کے ذکر کا سبب کیا ہے؟
اصل میں قصہ یہ ہے کہ سینئر صحافی بھائی نصر اللہ چودھری کو چند روز پیشتر کسی ٹھوس جواز کے بغیر رات گئے گھر سے اُٹھا لیا گیا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ القاعدہ کے کسی کارکن سے رابطے میں ہیں۔ ان کے گھر سے لٹریچر بھی برآمد کیا گیا۔
القاعدہ کے کارکن سے رابطے میں ہونا اگر واقعتاً کوئی بڑا جرم ہے تو پہلے اس سوال کا جواب دیا جانا چاہیے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں کیوں موجود تھا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی اطلاع القاعدہ کے کسی رکن نے امریکا کو مہیا کی یا ’’الفائدہ‘‘ کے کسی رکن نے یہ کارنامہ انجام دیا؟۔ اس سلسلے میں ساری شہادتیں الفائدہ کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ جہاں تک نصر اللہ چودھری کا تعلق ہے تو وہ بیچارے اپنے بہی خواہوں تک سے رابطے میں نہیں تھے۔ ہمیں ان سے کوئی بات کرنی ہوتی تھی تو پانچ سات مرتبہ فون کیے بغیر ان سے رابطہ نہیں ہوتا تھا۔ البتہ نصر اللہ چودھری کا یہ جرم سنگین اور ناقابل معافی ہے کہ وہ لٹریچر وغیرہ بھی پڑھتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان میں علم اور شعور کی موجودگی کا کیا جواز ہے۔ علم اور شعور انسان بناتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان کی ضرورت انسان نہیں ایسے لوگ ہیں جو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتے ہوں، اپنے کانوں سے نہ سنتے ہوں، اپنے ذہن سے نہ سوچتے ہوں بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں سے دیکھتے ہوں، اسٹیبلشمنٹ کے کانوں سے سنتے ہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ذہن سے سوچتے ہوں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ لٹریچر پڑھنے والے جبر کے نظام کے باغی ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کو ازسرنو تعمیر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں یہ کام بھی غداری سے کم نہیں۔ آخر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی دنیا اس لیے تو نہیں بنائی کہ کوئی اسے تہہ و بالا کرنے اور ایک بہتر دنیا تعمیر کرنے کا خواب دیکھے۔ چناں چہ نصر اللہ چودھری کے گھر سے لٹریچر کا برآمد ہونا واقعتاً خطرناک بات ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں علم اور شعور پیدا نہیں کررہے، کررہے ہوتے تو الفائدہ اب تک تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرچکی ہوتی۔ آخر الفائدہ کے پاکستان میں باغی اور انقلابی پیدا کرنے والے کارخانوں کے وجود کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟
روزنامہ جسارت کی ایک خبر کے مطابق گزشتہ بدھ کے روز نصراللہ چودھری کو خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا تو ان کے چہرے پر کپڑا چڑھا ہوا تھا اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ پاکستان کے آئین کی رو سے آئین توڑنا یا اسے معطل کرنا غداری ہے اور اس کی سزا موت ہے مگر ہمارے جرنیلوں نے بار بار آئین کو توڑا مگر سزائے موت تو دور کی بات ہے کبھی ان کے چہرے پر کپڑا ڈالا جاسکا نہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈالی جاسکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نصر اللہ چودھری کا جرم آئین سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ پاکستان ایک جرنیل کے دور میں ٹوٹا اور جنرل نیازی نے پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ہتھیار ڈالے لیکن جنرل یحییٰ اور جنرل نیازی کے چہرے پر کبھی کپڑا نہ ڈالا جاسکا اور نہ ہی ان کے ہاتھوں میں کبھی ہتھکڑیاں ڈالی جاسکیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نصر اللہ چودھری کا جرم دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور ملک توڑنے سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے مطابق سربراہ جنرل درانی نے پاکستان کی دشمن ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر اسپائی کرونیکلز کے نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ اس کتاب میں ایک باب اکھنڈ بھارت پر بھی ہے۔ اس باب میں جنرل درانی نے اکھنڈ بھارت کے تصور کی حمایت کی ہے۔ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جنرل درانی کو اب تک پھانسی پر لٹکادیا جانا چاہیے تھا مگر صرف ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور انہیں جی ایچ کیو طلب کیے جانے پر اکتفا کیا گیا۔ یہاں تک جنرل درانی کے وکیل نے عدالت عالیہ کے روبرو یہ فرمایا ہے کہ جنرل درانی کو چائے کے کپ پر جی ایچ کیو بلایا گیا تھا۔ یعنی آئی ایس آئی اور ایم آئی کا سابق سربراہ خود پاکستان توڑنے کی سازش کا مرکزی کردار بنا ہوا ہے مگر اسے سزا دینے کے بجائے اسے چائے کے کپ پر جی ایچ کیو بلایا جارہا ہے۔ کاش نصر اللہ چودھری بھی کوئی جنرل ہوتے، الفائدہ کے رکن ہوتے، پھر انہیں بھی لٹریچر پڑھنے کے باوجود جی ایچ کیو بلا کر چائے کا کپ پیش کیا جاتا۔
ہمیں کراچی پریس کلب کے صدر احمد ملک کے اس بیان پر حیرت ہے جس میں انہوں نے نصر اللہ چودھری کی گرفتاری کے حوالے سے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا کسی صحافی کا مطالعہ کرنا جرم ہے؟ بالکل جرم ہے۔ صحافی، صحافت کے لیے ہوتے ہیں مطالعے کے لیے نہیں ہوتے۔ چناں چہ ملک کے اکثر معروف صحافی معروف ہی اس لیے ہیں کہ وہ مطالعہ نہیں کرتے۔ صحافی مطالعہ کرنے لگتے ہیں تو وہ زندگی کے معنی کو سمجھنے لگتے ہیں اور فی زمانہ صحافت کا بنیادی تقاضا سمجھ نہیں ناسمجھی ہے۔ صحافت میں ان دنوں جو بھی کچھ ہے ناسمجھی کا پھیلاؤ ہے۔ ہمارے زمانے میں ناسمجھی صحافیوں کی وہ متاع ہے جس سے وہ مشہور بھی ہوتے ہیں اور دولت مند بھی، یہاں تک کہ ان کے قلم پر ’’الفائدہ‘‘ کی مہر بھی ان کی ناسمجھی کی وجہ سے لگتی ہے۔ قائد اعظم نے کہا تھا صحافت اور قوم کے عروج و زوال میں ایک نسبت باہمی ہے، یعنی صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو قوم بھی عروج کی طرف بڑھتی ہے، صحافت زوال پزیر ہوتی ہے تو قوم بھی زوال میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری صحافت کو مدتوں سے ’’الفائدہ‘‘ کا مرض لاحق ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ القاعدہ کی تو سبھی مذمت کرتے ہیں مگر الفائدہ سیاست میں ہو یا صحافت میں اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔