بیرون ملک بھی منفی پروپیگنڈا

199

عمرانی حکومت کے 100 دن پورے ہونے والے ہیں اور اس عرصے میں پاکستان میں بنیادی تبدیلی لانے کے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان کی فہرست پیش کرنے کی تیاریاں کی جاچکی ہیں۔ تمام وزرا نے بھی کمر کس لی ہے کہ اپنے اپنے شعبے کے کارہائے نمایاں بتائے جائیں۔ عمران خان کا یہ شکوہ بجا ہے کہ حزب اختلاف نے پہلے ہی دن سے حکومت کے خاتمے کی کوشش شروع کردی ہے، اسے کچھ تو مہلت دینی چاہیے تھی۔ لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ خود عمران خان بھی 2013ء کے انتخابات کے چند ماہ بعد کنٹینر پر چڑھ گئے تھے اور دھاندلی کے نام پر حکومت مخالف تحریک چلادی تھی۔ انہوں نے اپنی پہلی تقریر کا آغاز ہی الزامات سے کیا تھا اور 50 لوگوں کو جیل میں ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے یا ان کے ترجمان فواد چودھری نے کسی کا نام نہیں لیا اور سب کوچور، ڈاکو کہنے پر احتجاج کرنے والوں کے بارے میں دونوں ہی یہ کہتے ہیں کہ ہم چور، ڈاکوؤں کو پکڑنے کی بات کرتے ہیں تو اپوزیشن کیوں بھڑک جاتی ہے۔ بہتر تھا کہ عمران خان اور فواد چودھری ان لوگوں کے نام بھی لے ڈالتے جنہیں جیلوں میں ڈالنے کا ارادہ ہے۔ مگر کیا عمران خان نے عدالت کے اختیارات بھی اپنے پاس رکھ لیے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ عمران خان اور ان کے ترجمان فواد چودھری کا بیانیہ یکساں ہے جیسے دونوں کو ایک ہی اسکرپٹ تھمایا گیا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ایف آئی اے چونکہ ان کی ماتحت ہے اس لیے ان کے پاس رپورٹیں آگئی ہیں کہ کس کس نے لوٹ مار کی۔ یہ بہت اچھی بات ہے اور کرپشن کے خاتمے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن صرف دھمکیاں دینا وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔ ان کے پاس ثبوت آگئے ہیں تو معاملات عدالت کے سپرد کریں اورلٹیروں کو عدالتوں سے سزا دلوائیں مگر ابھی تک تو شریف برادران پر بھی جرائم ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ عمران خان نے ایک مختصر مدت میں کئی ممالک کے دورے کیے ہیں اور ان سے امداد کے وعدے لے کر آئے ہیں۔ عملاً تو ابھی تک صرف سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر موصول ہوئے ہیں باقی صرف وعدے ہیں۔ چین نے کیا وعدے کیے یہ پاکستانی عوام کے لیے ابھی راز ہے تاہم آئی ایم ایف کو ضرور بتایا ہوگا۔چین سے ملائیشیا تک عمران خان جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے پاکستان کے بارے میں کچھ اچھے تاثرات کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس ملک کو کرپشن کا گڑھ قرار دیا۔ گزشتہ بدھ کو ملائیشیا میں خطاب کرتے ہوئے بھی انہوں نے پاکستان میں کرپشن کا رونا رویا اور پھر دہرایا کہ ’’ایک ایک کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالا جائے گا‘‘ لیکن کیا ان کے پاس چوروں، ڈاکوؤں کو پکڑنے کے اختیارات ہیں اور کیا وہ ایف آئی اے کی سربراہی کرنے کے بجائے اس کا رکن بن گئے ہیں کہ لوگوں کو پکڑتے پھریں گے یہ کام ضرور ہونا چاہیے لیکن آئین و قانون کے تحت۔ ثبوت ہیں تو مجرموں کو گرفتار کرواکر عدالت کے حوالے کریں، بڑھکیں مارنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف کا یہ الزام بے وزن نہیں ہے کہ ابھی تک تو شریف برادران ہی پر مقدمات چل رہے ہیں لیکن خود تحریک انصاف کے رہنما چھٹے پھررہے ہیں چنانچہ حزب اختلاف کو بولنے کا موقع مل رہا ہے کہ عمران خان اپنی صفوں پر بھی نظر ڈالیں، کرپٹ لوگ نظر آجائیں گے۔ ان کے نام ذرائع ابلاغ میں آچکے ہیں۔ عمران خان کو یاد ہوگا کہ حزب اختلاف نے آغاز ہی میں کہا تھا کہ عمران خان کو مدت اقتدار پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن خود عمران خان اور ان کے حواری اپنے اوپر تنقید کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔100 دن پورے ہونے سے پہلے مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوگیا ہے کہ لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں اور یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ 5 سال میں کیا ہوگا۔ عمران خان نے ملائیشیا میں خطاب کرتے ہوئے پھر نعرہ لگایا کہ کوئی این آر او نہیں دیں گے۔ اس تکرار سے لگتا ہے کہ بہت سے لوگ عمران خان سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ چنانچہ یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ عمران خان ان لوگوں کے نام بتائیں جو آپ سے این آر او مانگ رہے ہیں۔ پھر یہ بھی سوال ہے کہ کیا وزیراعظم کے پاس کسی کو این آر او یا نیشنل ری کنسی لئیشن آرڈیننس (قومی مفاہمت کا آرڈیننس) دینے کا اختیار ہے؟ہرگز نہیں۔ پھر بار بار یہ کہنا کہ ’’نہیں دیں گے‘‘ عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کہ شاید کچھ لوگ این آر او کے لیے عمران خان کی منت کررہے ہیں۔ وزیراعظم کے پاس تو کسی کو اپنی صوابدید پر جیل میں ڈالنے کا اختیار بھی نہیں۔ مزید فرمایا کہ چارٹر آف ڈیمو کریسی (منشور جمہوریت) پر مک مکا نہیں ہوگا۔ یہ بھی اچھی بات ہے مگر پھر وہی سو ال کہ مک مکا کا تقاضا کون کر رہا ہے؟ جب تک کھل کر نام نہ بتائے جائیں یہ صرف ہوا میں تیر اندازی کے مترادف ہے اب وہ ایک منتخب وزیراعظم ہیں۔ بہتر ہے کہ کوئی ٹھوس پروگرام پیش کریں ایک ارب درخت لگانے اور 50 لاکھ مکانات تعمیر کرکے دینے کے اعلانات خوش کن ہیں، ان پر عمل کرکے دکھائیں۔۔ حکومت منی لانڈرنگ کو ضرور روکے کہ اس سے بہت بڑی تعداد میں ناجائز رقم ملک سے باہر گئی ہے۔ منی لانڈر کو ضرور پکڑا جائے مگر اب تک تو کسی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔۔ عمران خان نے اپنا موازنہ ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد سے کیا کہ ہم دونوں کو عوام نے کرپشن کے خلاف اقتدار دیا لیکن خان صاحب! مہاتیر محمد نے تو برسوں کرپشن کے خلاف کام کیا تب انہیں ایک بار پھر اقتدار ملا جب کہ آپ نے تو اب تک محض اعلانات کیے ہیں، عمل کے میدان میں ابھی آپ کا امتحان ہونا باقی ہے۔ خدا کرے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل بھی کر گزریں اور خود کو بڑا لیڈر ثابت کرنے کے لیے کہیں یوٹرن نہ لے بیٹھیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مہاتیر محمد اقتدار میں بھی رہے اور حزب اختلاف میں بھی لیکن انہوں نے کسی بھی موقع پر ملک سے باہر جاکر اپنے ہی ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈا نہیں کیا اور اب بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ ایک ایک کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالوں گا۔