ایک بڑی آفت ٹل گئی

189

جمعۃ المبارک کو پاکستان میں دو بڑے سانحات ہوئے۔ ایک تو صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے اورکزئی میں جمعہ بازار میں خودکش دھماکا اور دوسرا کراچی میں چین کے قونصل خانے پر مسلح افراد کا حملہ۔ دوسرا واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زیادہ سنگین ہے جس کا اصل مقصد چین سے پاکستان کے تعلقات کو متاثر کرنا تھا۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے چین کا دورہ کیا ہے اور ان کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے چین سے کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے ان معاہدوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے بارے میں سب کو معلوم ہے لیکن ہم نہیں بتائیں گے کیوں راز داری کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اس سے قطع نظر چین کے بارے میں ایک عرصے سے کہا جارہا ہے کہ چین پاکستان کا آزمودہ دوست ہے اور یہ دوستی ہمالہ سے بلند اور سمندروں سے زیادہ گہری ہے۔ چینی قونصل خانے پر حملے کا مقصد پاک چین دوستی پر ضرب لگانا تھا۔ حملے میں تینوں دہشت گرد مار دیے گئے۔ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے پولیس کے دو جوان شہید ہوگئے اور چین کا ویزا لینے کے لیے آنے والے باپ بیٹا بھی جاں بحق ہوگئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایک حملہ آور عبدالرزاق کا تعلق بلوچستان کے علاقے خاران سے تھا۔ پولیس کے جوانوں نے اپنی جان قربان کر کے حملہ آوروں کا منصوبہ ناکام بنایا۔ وہ پوری قوم کے خراج عقیدت کے مستحق ہیں۔ حملہ آوروں کے پاس سے جو سامان برآمد ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ارادہ طویل عرصے تک قونصل خانے پر قبضہ رکھنے اور سفارتی عملے کو یرغمال بنانے کا تھا۔ خوراک اور دواؤں کے علاوہ ان کے پاس مزید بم بنانے کا سامان بھی تھا۔ اگر دہشت گرد اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہو جاتے تو پاک چین تعلقات تو شاید زیادہ متاثر نہ ہوتے لیکن پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوتی۔ اس وقت معاشی صورت حال کو سنبھالا دینے کے لیے بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی جارہی ہے لیکن اس کے لیے بنیادی شرط امن و امان کا استحکام ہے۔ اگر دہشت گردی عام ہو تو ایسے میں ملکی سرمایہ کار بھی آگے نہیں بڑھتے۔ حملے کا ایک سبب پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی تعمیر بھی ہوسکتی ہے۔ اس منصوبے کیخلاف امریکا اور بھارت دونوں ہی سخت بیانات دے چکے ہیں اور ان ممالک کی خواہش ہے کہ منصوبہ مکمل نہ ہو۔ پاکستان میں دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے کئی شواہد موجود ہیں۔ سی آئی اے اور بلیک واٹر کے ایجنٹ بھی سرگرم ہیں اور بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر کل بھوشن یادو پاکستان میں تخریب کاری کے عزائم کا اعتراف کرچکا ہے اس کو پھانسی دینے میں بلاوجہ تاخیر کی جارہی ہے جب کہ بھارت نے ممبئی حملے کا الزام اجمل قصاب پر لگا کر اسے فوری طور پر پھانسی چڑھا دیا تھا اور پاکستان سے کسی کو بھی اس سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ 10سال بعد اب یہ ثابت ہو رہاہے کہ اجمل قصاب پاکستانی نہیں بھارتی شہری تھا جس کا تعلق یوپی سے تھا۔ اس کے بھارتی شہری ہونے کی 11 دستاویزات منظر عام پر آچکی ہیں۔ بھارتی حکومت نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے فوری طور پر اجمل قصاب کی شہریت منسوخ کردی اور جس ریونیو افسر نے یہ انکشاف کیا تھا اسے معطل کردیا گیا۔ پاکستان کے وہ ذرائع ابلاغ جو پاکستان میں اجمل قصاب کے گھر تک پہنچ گئے تھے ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر ملکی تخریب کاروں کو ملک کے اندر ہی سے سہولت کار میسر آجاتے ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر یا ریاست سے ناراضی پر قوم و ملک سے دشمنی پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ کسی کے کیا اپنے بھی نہیں ہوتے۔ یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے، ان کی شناخت بھی۔ بہرحال تحقیقات جاری ہے اور کئی اہم انکشافات ہوسکتے ہیں۔ تخریب کاری کو ناکام بنانے پر چین نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ تحسین وآفریں کے مستحق سندھ پولیس کے وہ جوان ہیں جنہوں نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ ان کی بیواؤں اور بچوں کی کفالت کی ذمے داری حکومت پر ہے اورتوقع ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ ایک بات بہرحال قابل توجہ ہے کہ کراچی میں جہاں قدم قدم پر تلاشیاں لی جارہی ہیں، ہر جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں وہا ں یہ دہشت گرد بھاری اسلحہ اور بموں سمیت سب کی نظر سے بچ کر قونصل خانے تک کیسے پہنچے۔ اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔ یہ تخریب کار اپنے ساز و سامان سمیت بلوچستان سے چل کر کراچی میں داخل ہوئے ہوں گے۔ یہ کیسے ممکن ہوا ؟ اس مجرمانہ غفلت کے باوجود کراچی ایک بڑی تخریب کاری سے بچ گیا۔