منور حسن نے درست ہی تو کہا تھا !

255

 

 

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر اب اس لیے نہیں دیتے کیوں کہ وہ پیسے لے لیتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں۔ بن لادن اس کی بڑی مثال ہے اور افغانستان ایک اور۔ اس سے قبل اتوار کو امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جب سے امریکا کے اہم منصب پر فائز ہوئے اس وقت سے اسی طرح کے متنازع بیانات دے رہے ہیں۔ ان بیانات سے امریکا کی ’’جگ ہنسائی‘‘ ہورہی ہے۔ اور اس کے ذمے دار خود امریکا کے صدر ہیں۔ امریکی حکام بھی اپنے ہی صدر کے بیانات سے شرمندہ ہورہے ہیں بس یوں سمجھیں کہ انہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ بہرحال پاکستانی قوم کے لیے یہ امر قابل اطمینان اور مسرت کا باعث ہے کہ تین ماہ قبل اقتدار سنبھالنے والے وزیر اعظم عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو جرات مندانہ جواب دیا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار امریکی صدر کے موقف کو نہ صرف مسترد کیا گیا بلکہ واضح الفاظ میں اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ کی درستی کے لیے پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے 75,000 افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا جب کہ اس بارے میں امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ اس صورتحال میں، میں یہاں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کا ایک بیان یاد دلانا چاہتا ہوں جو انہوں نے اپنے دور امارت میں دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ خود کو لبرل کہنے والی سیاسی پارٹیاں ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی نے پچھلے پانچ سال میں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں جو بویا تھا آج انہیں وہی کاٹنا پڑ رہا ہے، آرمی چیف کا الیکشن کے نزدیک دہشت گردی کیخلاف جنگ پر بیان قواعد وضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ امریکا کی ہے ہماری نہیں جنرل کیانی قوم کو سبز باغ نہ دکھائیں، پورے ملک میں الیکشن کے حوالے سے گو مگو کی کیفیت ہے، پانچ سال میں حالات ٹھیک نہ کرنے والے الیکشن ملتوی کروا کر امریکی ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ چار مرتبہ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے اقتدار میں آنے والوں نے عوام کو لوڈشیڈنگ، مہنگائی، کرپشن، لاقانونیت اور ڈرون حملوں کے سوا کچھ نہیں دیا، جو پارٹیاں انتخابی میدان میں ہیں کئی مرتبہ اقتدار میں آ کر سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہیں اور اب ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے لبرلزم ہونے کے آنسو بہا رہی ہیں۔ ان کے نزدیک لبرل کا مطلب اسلام دشمنی اور امریکا کی حمایت ہے۔ سید منورحسن نے کہا تھا کہ جنرل کیانی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ہماری جنگ قرار دینے کا بیان پانچ سال تک امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے والوں کے لیے تقویت کا باعث اور الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جس جنگ کو پاکستانی جنگ قرار دیا گیا وار آن ٹیرر نے ہماری ملکی معیشت کی کمر توڑ دی اور پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا غلام بنا دیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اس وار آن ٹیرر کے بہانے بھارت اور اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے۔
سید منور حسن کے اس بیان کا یہاں ذکر ’’کمپنی کی مشہوری‘‘ نہیں ہے بلکہ لوگوں کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنا ہے۔ آج اگر جمہوری حکومت اور پاک فوج میں ہم آہنگی ہے تو اسی وجہ سے ہے کہ دونوں امریکی چالوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے خطے کے امن کے لیے کام کرتے ہوئے دہشت گردی کیخلاف جنگ بھی کامیابی سے لڑی ہے اور افغان امن کے لیے وہ کچھ کیا ہے جو دنیا کے کسی اور ملک نے نہیں کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق عسکری، معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے سب سے زیادہ قیمت بھی پاکستان ہی نے چکائی ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ اگر غور کیا جائے تو جماعت اسلامی کے سابق امیر منورحسن نے جو باتیں 2013 میں کی تھیں آج وہی باتیں ملک کی عسکری اور جمہوری قیادت بھی کرنے لگیں ہیں۔ اگر لوگ جماعت کے رہنما کی باتوں کو تسلیم کرلیتے تو آج امریکی صدر پاکستان پر غراتے نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے قابل اعتراض بیان پر پاکستان کے شدید رد عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا کی وزارت دفاع نے پیغام جاری کیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امریکا کا اہم اتحادی ہے۔ پینٹاگون کے ڈائریکٹر پریس آپریشنز کرنل راب میننگ نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ خطے میں پاکستان اور امریکا کے مشترکا مفادات ہیں اور افغان تنازعے کے حل کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی ہے۔ پینٹاگون کے اس بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا کو ابھی پاکستان کی بہت ضرورت ہے وہ پاکستان کے ساتھ روایتی تعلقات کا خواہش مند ہیں۔ جبکہ یہ بھی عیاں ہوگئی ہے کہ پینٹاگون صدر ٹرمپ کی باتوں سے اختلاف کرتا ہے۔ پینٹاگون کی اس وضاحت کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسیوں کو جاری رکھنا خصوصاً امریکا اور بھارت کے معاملات میں سخت پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ یہی نئے پاکستان کا تقاضا اور ملک کو آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی قرضوں سے نجات دلانے کا راستہ بھی ہوگا۔