مولانا عبدالوہاب۔۔۔ اسلام کے بے لوث سپاہی

257

 

 

تبلیغ دین اور اسلام کے بے لوث سپاہی مولانا عبدالوہاب 95 سال کی عمر میں اپنی نذر پوری کرکے اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ وہ پاکستان میں عالمی تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر تھے جب کہ بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاسؒ کے حوالے سے انہیں چوتھا امیر جماعت قرار دیا جاتا ہے۔ مولانا محمد الیاس نے 1927 میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی، اس جماعت کے قیام کا اصولی مقصد بے عمل اور بے عقیدہ مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی عقائد سے آگاہ کرنا اور انہیں روزہ، نماز اور اسلامی اخلاق کی پابندی کے ذریعے باعمل مسلمان بنانا تھا، مولانا الیاسؒ کو یہ فکر لاحق نہ تھی کہ غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں کیسے لایا جائے، ان کو اصل فکر اور تشویش یہ تھی کہ بے عمل مسلمانوں کو باعمل مسلمان کیسے بنایا جائے، ان میں دین کا شعور کیسے پیدا کیا جائے، ان میں دین کی بنیادی تعلیمات کیسے عام کی جائیں۔ بس اسی فکر نے تبلیغی جماعت کا روپ دھار لیا، خود بخود ہم خیال لوگوں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی اور آپ تبلیغ و اشاعت دین کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی غریب بستیوں کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، عام مسلمانوں کو کلمہ توحید کا مطلب سمجھایا اور اس کلمے کی بنیاد پر عاید ہونے والے فرائض کی جانب ان کی توجہ دلائی تو مسجدیں آباد ہوگئیں اور تبلیغی جماعت کی خوشبو چہار سو پھیل گئی۔
(مولانا) عبدالوہاب تبلیغی جماعت کے وجود میں آنے سے چار پانچ سال پہلے 1922 یا 1923 میں دہلی کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے، والدین دین دار تھے اس لیے بچپن ہی سے دین سے تعلق قائم ہوگیا۔ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور جدید تعلیم کا چرچا تھا اس لیے ان کے والدین نے بھی اپنے صاحبزادے کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے اور دنیاوی اعتبار سے ایک کامیاب انسان بنانے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ عبدالوہاب نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کی اور مقابلے کے ایک امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے انگریز حکومت میں تحصیلدار کے منصب پر فائز ہوگئے۔ یہ اُس زمانے میں ایک بڑا سرکاری عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ عبدالوہاب جو ابھی مسٹر سے مولانا نہیں ہوئے تھے، دنیاوی اعتبار سے ایک کامیاب انسان بن گئے تھے لیکن قدرت ان سے اللہ کے دین کی خدمت کا کام لینا چاہتی تھی اس لیے دنیاوی جاہ و چشم نے انہیں بے چین کردیا، وہ حق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بالآخر وہ تبلیغی جماعت کے بانی امیر مولانا محمد الیاس کاندھلوی تک پہنچے اور ان کے دستِ حق پرست پر بیعت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مولانا محمد الیاس کی نگاہ نے ان کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو بھانپ لیا اور اپنی خصوصی تربیت کے ذریعے انہیں مسٹر سے مولانا بنادیا، یہ 1944 کا زمانہ اور بانی امیر تبلیغی جماعت کی زندگی کا آخری سال تھا۔ مولانا عبدالوہاب کو کم و بیش چھ ماہ تک مولانا محمد الیاس کی خدمت میں شب و روز حاضر رہنے اور ان سے روحانی فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کے دل کی دنیا بدل گئی، انہوں نے سرکاری ملازمت کو لات مار دی اور ہمہ وقت تبلیغ دین کے لیے وقف ہوگئے۔ مولانا محمد الیاس کے انتقال کے بعد مولانا محمد یوسف کاندھلوی مولانا الیاس کے جانشین مقرر ہوئے تو مولانا عبدالوہاب کو ان سے بھی کسب فیض کا موقع ملا اور وہ ان کی قیادت میں سرگرم عمل رہے۔
یہی وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان زوروں پر تھی اور غیر منقسم ہندوستان میں ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الاللہ‘‘ کا نعرہ گونج رہا تھا اس جذباتی فضا میں بھی تبلیغی جماعت نے تحریک پاکستان کے متوازی اپنا کام جاری رکھا اور دین سے بے بہرہ مسلمانوں کو دین کا دامن تھامنے اور عملی مسلمان بننے کی ترغیب دیتی رہی جس کا تحریک پاکستان پر نہایت مثبت اثر ظاہر ہوا اور جو لوگ تبلیغی جماعت کے حلقہ اثر میں آئے انہوں نے ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کو اپنا مطمح نظر بنالیا اور دل و جان کے ساتھ پاکستان بنانے کی جدوجہد میں شامل ہوگئے۔ مولانا عبدالوہاب بھی پاکستان کو اپنی منزل سمجھتے تھے، چناں چہ جونہی برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور بورے والا ضلع وہاڑی (پنجاب) کو اپنا مسکن ٹھیرایا۔ وہ ایک طویل عرصے تک تبلیغی جماعت میں ایک خاموش اور بے لوث سپاہی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ آخر جماعت کے دوسرے امیر حاجی محمد بشیر کے انتقال کے بعد 1995 میں تبلیغی جماعت کی قیادت انہیں سونپ دی گئی اور وہ اپنی پوری استعداد کے ساتھ تبلیغی جماعت کو متحرک کرنے کے لیے میدان میں آگئے، انہیں مولانا طارق جمیل سمیت نوجوان مبلغین کی ایسی مثالی ٹیم میسر آگئی جس نے مولانا عبدالوہاب کے وژن کے مطابق دین کی دعوت کو عام کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔ اس ٹیم نے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اللہ کے ساتھ ان کا تعلق جوڑنے میں کامیاب رہی۔ تبلیغی جماعت کی دعوت کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کیا جائے۔ مولانا عبدالوہاب نے رائیونڈ کو عالمی تبلیغی مرکز بنانے پر خصوصی توجہ دی اور ہر قسم کے فقہی، مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر دین کی دعوت عام کرنے پر اصرار کیا۔ نائن الیون کے بعد جب مذہبی جماعتوں پر نہایت کڑا وقت آیا ہوا تھا اور انہیں شدت پسند اور دہشت گرد قرار دے کر ان کی مشکیں کسی جارہی تھیں اور تبلیغی جماعت کی طرف بھی انگلیاں اُٹھ رہی تھیں تو مولانا عبدالوہاب نے نہایت فراست کے ساتھ جماعت کو اس ابتلا سے نکالا اور ہر قسم کی شدت پسندی اور دہشت گردی سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنے کی مذمت کی۔ انہوں نے اپنی جدوجہد اور اپنے خطبات کے ذریعے تبلیغی جماعت کو عالمی شناخت دی اور پوری دنیا میں اس کی اہمیت منوائی۔ رائیونڈ میں ہونے والا سالانہ تبلیغی اجتماع حج کے بعد سب سے بڑا عالمی اجتماع قرار پایا اور اس میں مولانا عبدالوہاب کی زبان سے نکلے ہوئے دعائیہ کلمات کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ مولانا عبدالوہاب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، ان کی نسبی اولاد بھی کوئی نہیں ہے لیکن ان کی روحانی اولاد پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کا فیض تا قیامت جاری رہے گا۔ رہے نام اللہ کا۔