ایک معانقے کا کمال یا کچھ اور

186

وزیر اعظم عمران خان کی حلف برادری کی تقریب میں بھارت سے شرکت کرنے والوں میں سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نمایاں تھے۔ وہ تقریب حلف برداری اور پاکستان میں قیام کے پورے عرصے میں مرکزِ توجہ رہے۔ اسی تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوت سنگھ سدھو کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورو نانک کے جنم دن کے موقع پر کرتار پورہ سرحد کھولنے کے لیے تیار ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو جو پہلے ہی اپنے دوست کے وزیر اعظم بننے پر مست تھے یہ خوش خبری سن کر رقصاں بھی ہوگئے۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر اس پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کا مطالبہ دہرانا شروع کیا۔ سدھو ابھی پاکستان ہی میں تھے کہ بھارت کا میڈیا ان کے لتے لینے لگ گیا اور یہاں تک کہ سدھو کو موت کی دھمکیاں بھی دی جانے لگیں۔ سدھو بھارت میں داخل ہوئے تو شعلہ بار میڈیا سوالات کی چنگاریوں کے ساتھ ان کا منتظر تھا۔ ان سے معانقے کا حساب مانگا جا رہا تھا اور وہ ٹی وی چینلوں پر اپنا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ جنرل باجوہ کے ساتھ معانقے کو بھارت سے غداری پر محمول کیا جانے لگا۔ اس شور وغل میں جنرل باجوہ کی طرف سے نوجوت سنگھ سدھو کے کان میں سنائی گئی خوش خبری پس منظر میں چلی گئی اور انتہا پسند ہندؤوں اور میڈیا کو صرف سدھو کا معانقہ ہی یاد رہا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اس مرحلے پر بھارت کو جنرل باجوہ کی پیشکش اور سدھو کی وکالت پسند نہیں۔
اس وقت بھارتی حکومت پاکستان دشمنی کا سودا فروخت کرکے الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ اب اچانک بھارت نے کرتار پورہ سرحد کھولنے کی پاکستانی تجویز کو تسلیم کر لیا۔ سدھو نے اس اعلان کا کریڈٹ اپنے مشہور زمانہ معانقے کو دیا اور کہا کہ وہ معانقہ رنگ لے آیا جس پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ سدھو نے عمران خان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ مشرقی پنجاب کے سکھوں کی سیاسی جماعت شرومنی اکالی دل اس فیصلے کا کریڈٹ سدھو کو دینے سے انکاری ہے۔ سدھو کانگریس کے لیڈر ہیں اور اکالی دل بھارتیا جنتا پارٹی کی اتحادی۔ شرومنی اکالی دل لے لیڈر پرکاش سنگھ بادل کا کہنا ہے کہ سدھو کون ہے؟۔ یہ تو شرومنی اکالی دل تھی جس نے مودی کو خط لکھ کر اسے پاکستان کی پیشکش سے فائدہ اُٹھانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس طرح کرتار پورہ سرحد کھولنے کا فیصلہ کریڈٹ کا معاملہ بنتا چلا جا رہا ہے۔
کرتار پورہ سرحد نارووال سے چند کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک نے اس مقام پر کئی برس قیام کیا تھا اور سکھوں کو یہاں جمع بھی کیا تھا۔ بھارت کرتار پورہ سرحد کھولنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر ومرمت کے حوالے سے اپنی حدود میں کام کرے گا اور پاکستان اپنی حدود میں سڑک اور ٹرمینل کی تعمیر کا کام شروع کرے گا۔ اٹھائیس نومبر کو وزیر اعظم عمران خان کرتار پورہ کوریڈور کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ سکھ ان دنوں بابا گورونانک کی پانچ سو پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ بھارت اس مرحلے پر انکارکرتے کرتے اقرار پر کیوں آمادہ ہوا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس اقدام کا تعلق ہندؤوں کے بجائے سکھوں سے ہے اور پاکستان کی شدید خواہش ہے کہ سکھ کمیونٹی کو اپنے مذہبی معاملات کی بجا آوری کے لیے ہر ممکن حد تک سہولتیں فراہم کی جائیں۔ بھارت سکھ کمیونٹی کے ساتھ پاکستان کے اس التفات سے خوش نہیں بلکہ اسے شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سکھ کمیونٹی کے ساتھ پاکستان کے ربط وتعلق میں بھارت کی برہمن اشرافیہ کو ہمیشہ ’’خالصتان‘‘ کی بُو محسوس ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان خالصتان تحریک کو زندہ کرنے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ بھارت کے ایک اخبار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایسے میں جب بھارت سے سکھوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں گورونانک کی سالگرہ منانے آئی ہے خالصتان نواز تنظیم کی طرف سے تمام اہم گوردواروں میں خالصتان کی حمایت میں پوسٹر چسپاں کر رکھے ہیں۔ اس ماحول میں پاکستان کی طرف کرتار پورہ سرحد کھولنے پر رضامندی کا اعلان کرکے حقیقت میں بھارت کو دفاعی پوزیشن میں دھکیل دیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت اس پیشکش سے فائدہ اُٹھانے میں جس قدر تاخیر کرتی خالصتان نواز سکھوں کی بات میں اتنا ہی وزن پیدا ہوتا اور عام سکھ کی بھارتی حکومت سے نفرت میں اضافہ ہوتا۔ اس لیے چارو ناچار بھارتی حکومت نے اس پیشکش کا فائدہ اُٹھالیا۔
بھارتیا جنتا پارٹی پنجاب کی سیاست میں سکھوں کی سیاسی جماعت اکالی دل کی اتحادی ہوتی ہے اور اب بھارتیا جنتا پارٹی اس اقدام سے اکالی دل کو بھی خوش کررہی ہے اور عام سکھ ووٹر کو بھی متاثر کرنا چاہتی ہے۔ گویا کہ بھارتی جنتا پارٹی اس مسئلے کو انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتی ہے۔ کرتار پورہ سرحد کھولنے سے پاکستان اور بھارت کے مجموعی تعلقات میں بہتری کا زیادہ امکان نہیں۔ بھارت کی سیاست اور حکومت کا اصل کنٹرول ہندو اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے لیے کرتار پورہ کی سرحد کھولنا یا نہ کھلنا کوئی جذباتی اور حقیقی مسئلہ نہیں رہا بلکہ پاکستان کے ساتھ سکھوں کا رابطہ ناگوار ہی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی مجموعی بہتری کا بیرومیٹر کشمیر ہے۔ اس محاذ پر کوئی مثبت پیش رفت ابھی تک نظر نہیں آتی۔