بیچارے مذہبی لوگ عریانی و فحاشی کو صرف عورت سے منسلک کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ عریانی و فحاشی کہیں بھی ہوسکتی ہے۔ عہد حاضر میں معیشت کی عریانی اور سرمائے کی فحاشی کا تجربہ عام ہے۔ یقین نہ آئے تو معروف کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چودھری کے حالیہ کالم کے چند اقتباسات ملاحظہ کرلیجیے۔ لکھتے ہیں۔
میرے ایک دوست ہر قسم کے حالات میں سروائیو کرجاتے ہیں، ملک کی سیاسی اور معاشی صورت حال جیسی بھی ہو میں نے انہیں کبھی غیر مطمئن یا پریشان نہیں دیکھتا، میں نے ان سے ایک دن وجہ پوچھی تو وہ مسکرا کر بولے ’’معیشت‘‘ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا، وہ بولے ’’معاشرت معیشت کے بغیر ممکن نہیں، آپ اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں تو پھر بڑے سے بڑا مسئلہ بھی مسئلہ نہیں رہتا، ہمارا کنبہ سات افراد پر مشتمل ہے، ہم تمام لوگ کماتے ہیں چناں چہ ہم ہر قسم کے حالات میں سروائیو کرجاتے ہیں‘‘۔ وہ رکے اور بولے ’’ہماری حکومتیں عوام کو اگر معیشت کی تربیت دے دیں تو یہ ملک مطمئن ممالک کی فہرست میں آجائے، یہ لوگوں کو ٹرینڈ کریں گھر کے ہر فرد کو کمانا چاہیے اور ہنر مند بھی ہونا چاہیے، ہمارے سارے مسئلے ختم ہوجائیں گے‘‘۔ یہ بظاہر چھوٹی سی ٹپ تھی لیکن اس میں پوری دنیا کی کامیابی چھپی ہے‘‘۔
جاوید چودھری نے مزید فرمایا۔
’’پاکستان اس وقت بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ مسائل ناقابل حل ہیں؟ جی نہیں! دنیا کے سو سے زائد ممالک نے یہ مسائل حل کرلیے ہیں، ہم بھی اگر کوشش کریں تو ہم بھی ان مسائل سے نکل سکتے ہیں، میں آج سے پاکستان کے مسائل اور ان کے حل پر ایک سیریز شروع کررہا ہوں، ہوسکتا ہے ارباب اختیار اس سیریز سے کچھ سیکھ لیں، ہم سب سے پہلے معیشت کی طرف آتے ہیں۔ معیشت کے بغیر فرد چل سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ لہٰذا معاشی خوشحالی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، خوش حالی کے لیے ہمیں انفرادی اور قومی دونوں سطحوں پر کام کرنا ہوگا، میں پہلے انفرادی حل تجویز کرتا ہوں‘‘۔
جاوید چودھری نے ایک بات یہ بھی کہی
آپ یورپ امریکا اور مشرق بعید کے ترقی یافتہ ممالک کو اسٹڈی کرلیجیے، وہاں والدین اس وقت تک بچے کے نان نفقے کے ذمے دار ہوتے ہیں جب تک اس کی جیب میں شناختی کارڈ نہیں آجاتا، امریکا اور یورپ میں ٹیکسی ڈرائیور کا بچہ ہو یا پھر وہ کسی ارب پتی شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہو، وہ جانتا ہے میں جس دن جوان ہوجاؤں گا مجھے اپنی پاکٹ منی، اپنی رہائش اور اپنی سواری کا خود بندوبست کرنا ہوگا۔ چناں چہ یہ بچے جوان ہونے سے پہلے ہی پارٹ ٹائم کام شروع کردیتے ہیں، میں یورپ کے ایسے بے شمار گھروں میں گیا جن میں جوان بچے اپنے ہی والدین کے پے اینگ گیسٹ تھے، وہ والدین کے گھر میں رہتے تھے لیکن وہ کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے تھے، یورپ کے تمام بچے جوان ہونے کے بعد جاب کرتے ہیں اور جاب کے لیے ظاہر ہے ہنر درکار ہوتا ہے، چناں چہ یہ بچپن ہی سے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ لیتے ہیں اور اس عمل میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں برابر ہوتے ہیں، ہم بھی آج سے فیصلہ کرلیں، ہم اپنے بچوں کا بوجھ صرف اٹھارہ برس تک اٹھائیں گے، یہ اس کے بعد خود کمائیں گے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس، 9 نومبر 2018)
جاوید چودھری کے ان ’’زریں خیالات‘‘ کو دیکھا جائے تو ہمارے آج کے کالم کا عنوان ’’معیشت کا مذہب‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر ہمیں خیال آیا کہ فی زمانہ لوگوں کو عریانی و فحاشی جتنا متوجہ کرتی ہے بیچارہ مذہب اتنا متوجہ نہیں کرپاتا۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جاوید چودھری نے حال ہی میں بعض انبیا کے روضوں پر حاضری دی ہے اور ان کے اپنے دعوے کے مطابق انہوں نے ان روضوں سے بڑی روحانیت کشید کی ہے، لیکن بدقسمتی سے جاوید چودھری کا حال اس شعر جیسا ہے۔
مکے گیا، مدینے گیا کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا
مگر یہاں جاوید چودھری کے زریں خیالات کے تجزیے اور تفہیم کی ضرورت ہے۔
جاوید چودھری کے بقول انسان کے اطمینان اور معاشرت کے استحکام کی بنیاد پیسہ ہے۔ آدمی کے پاس کافی دولت ہے تو کوئی مسئلہ، مسئلہ نہیں رہتا۔ معیشت انسانی زندگی کا اہم پہلو ہے مگر تمام مسلمانوں کی زندگی ایک دائرے میں خدا مرکز ہے۔ دوسرے دائرے میں رسولؐ مرکز ہے۔ تیسرے دائرے میں ایمان مرکز ہے، چھٹے دائرے میں انسان مرکز ہے،مگر جاوید چودھری نے اعلان کے بغیر ان تمام مراکز پر خط تنسیخ پھیر کر زندگی کو معیشت مرکز یا دولت مرکز بنادیا ہے۔ یہی معیشت کی عریانی ہے۔ یہی سرمائے کی فحاشی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دعوے میں دلیل ایک بھی نہیں دی۔ وہ اتنا بڑا دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے تھے تو انہیں قرآن سے سند لانی چاہیے تھی۔ سیرت طیبہؐ سے دلیل مہیا کرنی چاہیے تھی، ہماری تہذیب اور تاریخ کے بہترین زمانوں اور بہترین شخصیات میں سے کسی کا حوالہ دینا چاہیے تھا، بس ایک شخص نے ان کے کان میں سرگوشی کی اور انہوں نے ایک کالم ٹھوک دیا بلکہ کالموں کی سیریز لکھنے کا اعلان فرما دیا۔ ہمارے اخبارات میں شیطانی کھیل روز ہی کہیں نہ کہیں نظر آجاتا ہے۔
قرآن کہتا ہے اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، جاوید چودھری کہہ رہے ہیں کہ مضبوط معیشت یا پیسے کی فراوانی سے اطمینان مہیا ہوتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو، جاوید چودھری کا مشورہ ہے کہ معیشت اور سرمائے کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو۔
جاوید چودھری معیشت معیشت کررہے ہیں، ذرا وہ بتائیں تو سردار الانبیا اور خاتم النبیین کی معیشت کیا تھی؟ رسول اکرمؐ کے گھر کئی کئی دنوں تک چولہا نہیں چلتا تھا، سیدہ عائشہؓ کا بیان ہے کہ خیبر کی فتح تک ہم روز کھجوریں کھا کر اور پانی پی کر گزر اوقات کیا کرتے تھے۔ رسول اکرمؐ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ موجود تھے۔ ان میں سے کسی کی شخصیت معیشت مرکز یا دولت مرکز نہ تھی۔ بدقسمتی دیکھیے کہ صحابہ کا ذکر خیر ہوتا ہے تو بعض لوگ ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ اور ان کی زندگی کا تو ذکر نہیں کرتے مگر انہیں سیدنا عثمانؓ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ بہت یاد آتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ دونوں اصحاب اس زمانے کے ارب پتی تھے۔ مگر کوئی شخص سیدنا عثمانؓ یا سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی زندگی سے کوئی ایک مثال ایسی نکال کر دکھائے جس سے معیشت اور سرمائے کی ایک کرن بھی نکلتی ہوئی دکھائی دے اور اسے دیکھ کر کسی کو خیال آئے کہ سیدنا عثمانؓ یا سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنی معیشت یا سرمائے پر ناز تھا۔ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث پاک آپ نے کئی بار پڑھی ہوگی ایک بار اور پڑھ لیجیے۔ سیدنا علیؓ کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا۔ (1) میرا اصل سرمایہ معرفت ہے۔ (2) میرے دین کی جڑ عقل ہے۔ (3) میری بنیاد محبت ہے۔ (4) میری سواری شوق ہے۔ (5) میرا انیس ذکر الٰہی ہے۔ (6) میرا خزانہ خدا پر اعتماد ہے۔ (7) میرا رفیق غم دل ہے۔ (8) میرا ہتھیار علم ہے۔ (9) میرا لباس صبر ہے۔ (10) اللہ کی رضا میری غنیمت ہے۔ (11) عجز میرا فخر ہے۔ (12) میرا پیشہ زہد ہے۔ (13) میری خوراک یقین ہے۔ (14) صدق میرا ساتھی ہے۔ (15) اللہ کی اطاعت میرا بچاؤ ہے۔ (16) میرا اخُلق جہاد ہے۔ (17) میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ (فرائیڈے اسپیشل۔ 16 تا 22 نومبر 2018)
یہ حدیث مبارکہ اپنی جامعیت کے اعتبار سے رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مگر اسی حدیث پاک میں کہیں بھی معیشت، دولت، سرمائے کا ذکر نہیں۔ ان کی طرف اشارہ تک نہیں۔ چناں چہ رسول اکرمؐ نے جو تہذیب پیدا کی اس میں کہیں معیشت اور سرمائے کو مرکزیت حاصل نہیں۔ اسلام اور رسول اکرمؐ کی سیرت سے جو معاشرت پیدا ہوئی اس میں نہ خدا اور بندے کا تعلق دولت مرکز ہے، نہ رسول اور اُمتی کا تعلق دولت مرکز ہے، شوہر اور بیوی کا تعلق دولت مرکز ہے، نہ والدین اور اولاد کا تعلق دولت مرکز ہے، نہ ہی مسلمانوں کے تعلقات دولت مرکز ہیں۔ رسول اکرمؐ نے مذکورہ حدیث مبارکہ میں صاف کہا ہے کہ میرا اصل سرمایہ معرفت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرت کے دائرے میں اصل امیر وہ نہیں ہے جس کے پاس دنیاوی مال و دولت ہے بلکہ اصل امیر وہ ہے جس کے پاس معرفت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی سماج معرفت مرکز ہے۔ رسول اکرمؐ نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ میری بنیاد محبت ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی معاشرت میں ہر شخص کی شخصیت کو محبت مرکز ہونا چاہیے۔ ایک سطح پر محبت کا مفہوم خدا اس کے رسولؐ اور اس کے دین کی محبت ہے۔ دوسری سطح پر اس سے مراد بنیادی تعلقات اور تمام انسانوں کی محبت ہے، اسلامی معاشرہ اسی محبت کے سہارے کھڑ ہوتا ہے۔ اسی محبت سے خوبصورت اور مستحکم بنتا ہے، اسی محبت سے اطمینان حاصل کرتا ہے، اسی محبت سے اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ مگر جاوید چودھری فرما رہے ہیں کہ ہماری شخصیتوں کی بنیاد معیشت اور سرمائے پر رکھی ہوئی ہونی چاہیے۔ یہ اسلام، اس کے تصور انسان اور اس کے تصور معاشرہ کے خلاف غیر اعلانیہ بغاوت ہے۔
ہماری روحانی و علمی پستی اور ذہنی و نفسیاتی غلامی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں ہر سلسلے میں مغرب یاد آتا ہے۔ جاوید چودھری کو بھی زیر بحث موضوع کے حوالے سے مغرب یاد آرہا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ مغرب میں ماں باپ 18 سال تک اولاد کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اولاد جانے اور اس کا کام جانے۔ جاوید چودھری نے یہاں جھوٹ نہیں بولا۔ مغرب میں واقعتاً یہی ہورہا ہے مگر کیا چودہ سو سال کی تاریخ میں کبھی کسی مسلم معاشرے میں یہ ہوا ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی اسلامی معاشرے میں یہ ہونا چاہیے؟ اسلام ایک ایسا دین ہے جو خاندان کے ادارے کو بڑی اہمیت دیتا ہے، اس لیے کہ خاندان کا ادارہ پوری انسانی تہذیب کی بنیاد ہے۔
چناں چہ اسلامی معاشرے میں نہ والدین اولاد سے بے نیاز ہوسکتے ہیں اور نہ اولاد والدین سے بے نیاز ہوسکتی ہے۔ یہ رشتہ پوری زندگی پر محیط ہے، بلاشبہ مغرب میں والدین ایک خاص وقت کے بعد اولاد کا معاشی بوجھ اُٹھانے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب میں اولاد بوڑھے والدین کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیتی ہے۔ جاوید چودھری کی شدید خواہش ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی یہی ہو۔ مغرب سے عام طور پر لوگ ’’ثواب‘‘ مستعار لیتے ہیں مگر جاوید چودھری کے علم اور ذہانت کا یہ عالم ہے کہ وہ مغرب کے عذاب پر بھی رال ٹپکا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جاوید چودھری کی روحانی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی اور علمی صحت کا کیا حال ہے۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ دنیا میں معیشت مرکز انسان اور معاشرے موجود نہیں۔ اب تو پوری دنیا ہی معیشت مرکز ہوگئی ہے مگر انسان کے معیشت یا دولت مرکز ہونے نے جو دنیا تخلیق کی ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس تجربے کی ایک جھلک دکھاتے ہوئے مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام نے اپنی مشہور تصنیف The Anatomy of Human destructiveness میں کہا ہے کہ یورپی ممالک نے گزشتہ پانچ سو سال میں 2600 سے زیاادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں 20 ویں صدی کے دورن لڑی جانے والی دو خوفناک عالمی جنگ بھی شامل ہیں۔ ان جنگوں کا سبب یورپی اقوام کے معاشی مفادات تھے۔ بالخصوص دو عالمی جنگوں کا بنیادی سبب معیشت اور معاشی و سیاسی غلبے کا خواب تھا۔ دو عالمی جنگوں میں 10 کروڑ افراد مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جاوید چودھری کو معاشی اعتبار سے مضبوط مغربی ممالک میں جو اطمینان نظر آرہا ہے وہ کہاں ہے۔ کیا ایسے خطے میں اطمینان ہوسکتا ہے جہاں پانچ سو سال میں 2600 جنگیں لڑی گئی ہوں۔ جہاں 1914 سے 1945 تک 10 کروڑ افراد ہلاک اور 25 سے 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے ہوں؟۔ مغرب میں جو ’’اطمینان‘‘ موجود ہے اس کا اندازہ اس روحانی اور علمی نقشے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
نٹشے نے کہا خدا مر گیا
مارلو نے کہا انسان مر گیا
لارنس نے کہا انسانی تعلقات کا ادب مر گیا
دریدا نے کہا معروضی معنی کا وجود ہی نہیں۔
یعنی معروضی معنی مرچکے۔
یہ بات ہم نہیں کہہ رہے بلکہ مغرب کے بڑے بڑے فلسفی کہہ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں کوئی حقیقی اطمینان، کوئی حقیقی مسرت، کوئی حقیقی تعلق موجود ہوسکتا ہے؟ یقیناًنہیں۔ مگر جاوید چودھری صرف معاشی خوشحالی کی وجہ سے مغرب کے معاشروں کو اطمینان میں ڈوبے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ یہ لاعلمی بلکہ جہالت کی انتہا ہے۔
معیشت یا سرمایہ ماضی ہی میں جنگوں کی بنیاد نہیں بنا عصری دنیا میں بھی معیشت ایک نئی سرد جنگ تخلیق کررہی ہے۔ امریکا اس حوالے سے چین کے خلاف صف آرا ہوچکا ہے۔ یہ سرد جنگ آگے بڑھی تو اس سے امریکا اور چین میں گرم جنگ بھی شروع ہوسکتی ہے۔ ایسی جنگ دیکھتے ہی دیکھتے تیسری عالمی جنگ تخلیق کرسکتی ہے۔
انسان اپنی اصل میں ایک روحانی وجود ہے، ایک اخلاقی وجود ہے، ایک تہذیبی وجود ہے، ایک نفسیاتی، ذہنی، جذباتی اور احساساتی وجود ہے۔ چناں چہ انسان کو دولت اور اس کی اقدار پر پالنے کا مطلب انسان کی تمام مذکورہ بالا جہتوں کا انکار ہے۔ ان جہتوں کے انکار کے بعد انسان صرف ایک معاشی حیوان بن کر رہ جائے گا اور انسان کو معاشی حیوان بنانا انسان کو اس کے شرف سے محروم کرنا ہے۔ یہ صرف انسان نہیں پورے انسانی معاشرے بلکہ پوری انسانی تہذیب کے خلاف ایک سازش ہے۔ معیشت انسان کی ’’ضرورت‘‘ ہے مگر جاوید چودھری ضرورت کو انسان کی محبت بلکہ ’’واحد محبت‘‘ میں ڈھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اس بات کو ’’کارنامہ‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام بے یارومددگار ہے، ایسا نہ ہوتا تو زیر بحث کالم کی بنیاد پر جاوید چودھری کو کالم لکھنے کے حق سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم کردیا جاتا۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ تعمیر کے نام پر اپنی تخریب کو پسند نہیں کرسکتا۔